Poonam Yadav

پونم یادو

پونم یادو کی غزل

    درد کی اک کتاب ہے کوئی

    درد کی اک کتاب ہے کوئی زندگی اضطراب ہے کوئی تیرگی کی ادا بتاتی ہے داؤں پر ماہتاب ہے کوئی ہو گیا جس کو وہ ہوا تنہا عشق بھی اک عذاب ہے کوئی تیری جانب ہی کھینچ لاتی ہے یاد جیسے سراب ہے کوئی اس کا خاموش دیکھنا بھر ہی اک مکمل جواب ہے کوئی جی رہا ہے مگر نہیں جیتا یوں بھی خانہ خراب ...

    مزید پڑھیے

    کیا تجھ پر بھی بے چینی سی طاری ہے

    کیا تجھ پر بھی بے چینی سی طاری ہے مجھ پر تو یہ ہجر بہت ہی بھاری ہے بھاگو بھاگو دنیا کے پیچھے بھاگو مجھ کو مجھ میں رہنے کی بیماری ہے بے ادبی کی بات ادب سے کرتے ہیں کم ظرفوں میں کس حد تک مکاری ہے جس شہرت پر تم اتنا اتراتے ہو میں نے اس کو ہر دم ٹھوکر ماری ہے تیرا غم ہے جو لکھواتا ...

    مزید پڑھیے

    باقی سب کچھ دنیا میں بے معنی ہے

    باقی سب کچھ دنیا میں بے معنی ہے میری نظر میں اک تو ہی لا ثانی ہے روز بدل کر چہرے کیوں دکھلاتا ہے تیری ہر صورت جانی پہچانی ہے ساتھ رہے جیوں کوئی کنارے ندیا کے قسمت کی بھی دیکھو کیا من مانی ہے درد کا موسم پھر سے لوٹا ہے شاید آنکھوں کے دریا پر خوب روانی ہے غم آنسو تنہائی شکوہ بے ...

    مزید پڑھیے

    سفینہ ڈگمگانے لگ گیا ہے

    سفینہ ڈگمگانے لگ گیا ہے کوئی رستہ دکھانے لگ گیا ہے مراسم ختم ہوتا ہی سمجھئے وہ کچھ نزدیک آنے لگ گیا ہے تیرے غم نے بڑی چارہ گری کی ہمارا غم ٹھکانے لگ گیا ہے لہر دہلیز پر آئی ہے جب سے سمندر خوف کھانے لگ گیا ہے بہت دن ہو گئے بچھڑے ہوئے اب مجھے وو یاد آنے لگ گیا ہے سفر تاریکیوں کا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بھی ارمان نہیں ہے

    کوئی بھی ارمان نہیں ہے یوں جینا آسان نہیں ہے آہیں اندر گھٹ جاتی ہیں دل میں روشن دان نہیں ہیں چھوڑو بھی اب ان قصوں کو ان قصوں میں جان نہیں ہے بات چھپانا سیکھو صاحب کس گھر میں طوفان نہیں ہے اب بھی تیرا حصہ ہوں میں بس تجھ کو ہی دھیان نہیں ہے جب تب خواہش اگ آتی ہیں دل ہے ریگستان ...

    مزید پڑھیے

    زندگی جب بھی آزماتی ہے

    زندگی جب بھی آزماتی ہے کچھ نہ کچھ تو ہمیں سکھاتی ہے ہر حقیقت سمجھ میں آتی ہے موت جب آئنہ دکھاتی ہے ایک ننھی پری ہے آنگن میں جو مرے گھر کو گھر بناتی ہے کوئی پاگل لہر کنارے پر جانے کیا لکھتی ہے مٹاتی ہے سرپھری ہو گئی ہے اک لڑکی وہ ہوا میں دیا جلاتی ہے

    مزید پڑھیے

    جو اپنے آپ سے بیزار ہو گئے ہیں ہم

    جو اپنے آپ سے بیزار ہو گئے ہیں ہم سفر کے واسطے تیار ہو گئے ہیں ہم ہماری روح کے چھالوں سے لفظ رستے ہیں خود اپنی آہ کے اشعار ہو گئے ہیں ہم بطور جسم جو پابندیاں ہیں سو تو ہیں بطور ذہن بھی لچھار ہو گئے ہیں ہم بدلتے دور میں آسانیوں کو خطرہ ہے دنوں دن اس لئے دشوار ہو گئے ہیں ہم کہاں ...

    مزید پڑھیے

    بے نیازی کے سلسلے میں ہوں

    بے نیازی کے سلسلے میں ہوں میں کہاں اب ترے نشے میں ہوں ہجر تیرا مجھے ستاتا ہے اور باقی تو بس مزے میں ہوں ڈھونڈھ مت ان اداس آنکھوں میں غور کر تیرے قہقہے میں ہوں وہ مجھے اب بھی چاہتا ہوگا میں ابھی تک مغالطے میں ہوں ہر طرف محفلیں خیالوں کی عشق کے شاہی محکمے میں ہوں توڑ کر ہی نکال ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو پیاس بجھانی ہے

    مجھ کو پیاس بجھانی ہے اس میں کیا حیرانی ہے اس کی باتوں پر مت جا اس کو آگ لگانی ہے اپنے پن کی بات نہ کر میرے لیے بے معنی ہے آہٹ سے اڑ جاتی ہے تتلی خوب سیانی ہے جلنے والا جانے کیوں اب تک پانی پانی ہے

    مزید پڑھیے