جو اپنے آپ سے بیزار ہو گئے ہیں ہم

جو اپنے آپ سے بیزار ہو گئے ہیں ہم
سفر کے واسطے تیار ہو گئے ہیں ہم
ہماری روح کے چھالوں سے لفظ رستے ہیں


خود اپنی آہ کے اشعار ہو گئے ہیں ہم


بطور جسم جو پابندیاں ہیں سو تو ہیں
بطور ذہن بھی لچھار ہو گئے ہیں ہم


بدلتے دور میں آسانیوں کو خطرہ ہے
دنوں دن اس لئے دشوار ہو گئے ہیں ہم


کہاں لے جائے گی جانے یہ جستجو ہم کو
طلب کی راہ میں مسمار ہو گئے ہیں ہم