Nusrat Zehra

نصرت زہرا

نصرت زہرا کی غزل

    کئی عذاب رتوں کا عتاب باقی ہے

    کئی عذاب رتوں کا عتاب باقی ہے کچھ عارضوں کا بھی تو احتساب باقی ہے یہ کیا کہ شب کی اسیری میں قید ہو جائیں یقیں ہے جبکہ رخ ماہتاب باقی ہے پڑاؤ ڈال رہے ہیں سحر کے اگلے قدم مری زمیں میں ابھی اضطراب باقی ہے میں کیسے مان لوں اے جاں کہ حرف تازہ میں ترے جنوں کا وہ پہلا نصاب باقی ہے

    مزید پڑھیے

    اک عجب سر خوشی نگاہ میں ہے

    اک عجب سر خوشی نگاہ میں ہے جیسے تو پھر سے میری چاہ میں ہے تو بھی رہ رہ کے مجھ کو یاد کرے میرا بھی دل تری پناہ میں ہے تیز بارش ہے اور چراغ مرا کیسا گھمسان اس سپاہ میں ہے دھوپ سر پر برہنہ پا بے گھر خود فراموشی تو گناہ میں ہے چادر شب ہے اور صف ماتم مضمحل کوئی رنج شاہ میں ہے

    مزید پڑھیے

    کیسے طوفان اس سفر میں ہیں

    کیسے طوفان اس سفر میں ہیں جیسے کچھ حادثے نظر میں ہیں میرے بھی دل میں راکھ اڑتی ہے تیرے بھی خواب اس اثر میں ہیں وہ گھنا پیڑ ہو کہ سایہ طلب آخرش سب ہی چشم تر میں ہیں پیاس سے دم مرا بھی گھٹتا ہے شب کے سناٹے بھی خبر میں ہیں خواہش بے نوا ہے جب سے سوا تیرے افسانے ہر نگر میں ہیں

    مزید پڑھیے

    نہ رمز میں کسی معنی میں نہ سوال میں ہے

    نہ رمز میں کسی معنی میں نہ سوال میں ہے یہ میرا کھویا ہوا دل ترے خیال میں ہے نہ اب سکون ملے نا اسے قرار کہیں نہ اب خموش ہے دل اور نہ عرض حال میں ہے تری جبیں پہ جو اک بار جگمگایا تھا وہ اک ستارہ میرے لمحۂ وصال میں ہے پلٹ کے تو نے جو دیکھا تو یوں لگا مجھ کو کہ مرے پیار کا حاصل ترے ...

    مزید پڑھیے

    نوک ہر خار پر جو خوں ٹھہرا

    نوک ہر خار پر جو خوں ٹھہرا مری ہستی میں تو جنوں ٹھہرا تری راہوں کو چن لیا دل نے پھر مرے خواب کا زبوں ٹھہرا جانے کس دھن میں چل رہی تھی ہوا خطۂ یاس میں سکوں ٹھہرا رنگ بدلے کئی زمانوں نے دل کی حالت کہ جوں کا توں ٹھہرا میں ہنسی بھی میں گڑگڑائی بھی وہ نہ یوں ٹھہرا اور نہ یوں ...

    مزید پڑھیے

    شب کو تھا وہ کسی کی بانہوں میں

    شب کو تھا وہ کسی کی بانہوں میں آگ جلتی رہی نگاہوں میں کھل کے برسا نہیں کبھی ساون ایک بادل ہے ان نگاہوں میں تیرے کوچے میں وہ نہیں آیا برف سی جم گئی تھی راہوں میں کشتیاں جل گئی ہیں سب شاید اک دھواں ہے کسی کی آہوں میں کب تجھے بھول پائی پل بھر کو یہ بھی شامل مرے گناہوں میں

    مزید پڑھیے