کئی عذاب رتوں کا عتاب باقی ہے

کئی عذاب رتوں کا عتاب باقی ہے
کچھ عارضوں کا بھی تو احتساب باقی ہے


یہ کیا کہ شب کی اسیری میں قید ہو جائیں
یقیں ہے جبکہ رخ ماہتاب باقی ہے


پڑاؤ ڈال رہے ہیں سحر کے اگلے قدم
مری زمیں میں ابھی اضطراب باقی ہے


میں کیسے مان لوں اے جاں کہ حرف تازہ میں
ترے جنوں کا وہ پہلا نصاب باقی ہے