نوک ہر خار پر جو خوں ٹھہرا

نوک ہر خار پر جو خوں ٹھہرا
مری ہستی میں تو جنوں ٹھہرا


تری راہوں کو چن لیا دل نے
پھر مرے خواب کا زبوں ٹھہرا


جانے کس دھن میں چل رہی تھی ہوا
خطۂ یاس میں سکوں ٹھہرا


رنگ بدلے کئی زمانوں نے
دل کی حالت کہ جوں کا توں ٹھہرا


میں ہنسی بھی میں گڑگڑائی بھی
وہ نہ یوں ٹھہرا اور نہ یوں ٹھہرا


کیا کہا تو نے دل گرفتہ سے
پرچم آس سرنگوں ٹھہرا


مضمحل تھا کوئی بہت کل رات
پھر طلسمات کا فسوں ٹھہرا