صحرا کی طرح شہر وفا ہے کہ نہیں ہے

صحرا کی طرح شہر وفا ہے کہ نہیں ہے
ہر صاحب دل آبلہ پا ہے کہ نہیں ہے


پہچانتے ہیں لوگ ترے نام سے مجھ کو
اب تیرا پتا میرا پتا ہے کہ نہیں ہے


تسکین کے لمحات کو ترسی ہوئی دنیا
حالات سے ہر چند خفا ہے کہ نہیں ہے


ناموس وطن لوٹنے والوں کے لئے بھی
یا رب کوئی آئین سزا ہے کہ نہیں ہے


اس زلف کے سائے میں یہ احساس جلائے
ہنستے ہوئے صحرا پہ گھٹا ہے کہ نہیں ہے


جس حسن کا پرتو مری تقدیر بدل دے
وہ میرے لئے ظل ہما ہے کہ نہیں ہے


نصرتؔ میں اسی فکر میں رہتا ہوں پریشاں
انسان کو حقیقت میں فنا ہے کہ نہیں ہے