کیا کیا نہ سامنے سے زمانے گزر گئے

کیا کیا نہ سامنے سے زمانے گزر گئے
اک غم ہمارے ساتھ رہا ہم جدھر گئے


آ جا کہ اب تو تاب شکیبائی بھی نہیں
اے دوست تجھ کو دیکھے زمانے گزر گئے


کن حادثوں کے درمیاں جینا پڑا مجھے
دیکھے تھے جتنے خواب سہانے بکھر گئے


ہم سے تو تیرا غم بھی چھپایا نہ جا سکا
لب سی لئے تو پلکوں پہ آنسو ٹھہر گئے


وہ دوستوں کے دوست وہ غیروں کے غم گسار
وہ پرخلوص لوگ نہ جانے کدھر گئے


سنتے ہیں دن شباب کے جان حیات میں
لیکن وہ صبح و شام جو روتے گزر گئے


افراط غم ہی ایک نہیں موت کا سبب
فرط خوشی سے بھی تو کئی لوگ مر گئے


اے یاد یار آ کہ کمی درد دل میں ہے
اے چشم یار دیکھ کئی زخم بھر گئے


دل بھی ہے زخم زخم جگر بھی لہو لہو
تیر نگاہ یار کہاں تک اتر گئے


نصرتؔ وہ اس سے پہلے تو اتنے حسیں نہ تھے
آ کر مری نگاہ میں جتنے سنور گئے