رابطہ ہے ابھی ہواؤں سے
رابطہ ہے ابھی ہواؤں سے
جی رہا ہوں تری دعاؤں سے
زندگی بول کیا ارادہ ہے
موت مہنگی نہیں دواؤں سے
تو مری لغزشوں پہ طنز نہ کر
میری پہچان ہے خطاؤں سے
اس کو ثقل زمین کہتے ہیں
لوٹ آیا بشر خلاؤں سے
دل نے آنکھوں میں بھر دئے آنسو
لے کے مایوسیاں گھٹاؤں سے
جتنے خانہ خراب ہیں سب کو
بد دعائیں ملی ہیں ماؤں سے
بھیک دے ورنہ چھین لے آ کر
کاسۂ دید ہم گداؤں سے
اے خدا اب تو بال و پر دے دے
جسم چھپتے نہیں قباؤں سے
رنج و غم ہوں کہ حسرت و ارماں
مطمئن ہوں تری عطاؤں سے
کوششیں چھوڑ دوں سبھی نصرتؔ
کام نکلیں اگر دعاؤں سے