نور بجنوری کی غزل

    دل کے داغوں میں ستاروں کی چمک باقی ہے

    دل کے داغوں میں ستاروں کی چمک باقی ہے شب فرقت ابھی دو چار پلک باقی ہے سرخ ہونٹوں کے دیے ذہن میں روشن ہیں ابھی ابھی افکار میں زلفوں کی مہک باقی ہے بازوؤں میں ترے پیکر کی لطافت رقصاں انگلیوں میں تری باہوں کی لچک باقی ہے قصر پرویز میں گم ہو گئی شیریں کی صدا دامن کوہ میں تیشے کی ...

    مزید پڑھیے

    تیری یادوں میں کھوئے رہیں میری جاں

    تیری یادوں میں کھوئے رہیں میری جاں اتنی مہلت کسے اتنی فرصت کہاں جس جگہ ٹپ سے آنسو کا قطرہ گرا ایک شعلہ سا بھڑکا وہیں ناگہاں ہم سے کیا پوچھتے ہو ہمیں کیا خبر آگ کیوں لگ گئی آشیاں آشیاں ہم بھٹکتے رہے دشت ظلمات میں پھول ہنستے رہے گلستاں گلستاں ہائے وہ اجنبی لوگ اک شہر کے آشنا ...

    مزید پڑھیے

    چمکنے لگا ہے ترا غم بہت

    چمکنے لگا ہے ترا غم بہت دیے ہو چلے اب تو مدھم بہت گھٹاؤں میں طوفاں کے آثار ہیں تری زلف ہے آج برہم بہت یہاں لہلہائے ہیں اشکوں میں باغ نہ اترائے پھولوں پہ شبنم بہت یہ وہ دور ہے جس کا درماں نہیں یہ وہ راز ہے جس کے محرم بہت یہ دامان وحشت کی کچھ دھجیاں بنائیں گے لوگ ان سے پرچم ...

    مزید پڑھیے

    گئے دنوں کے فسانے سنا رہی ہے مجھے

    گئے دنوں کے فسانے سنا رہی ہے مجھے یہ رات اور بھی پاگل بنا رہی ہے مجھے یہ دھندلی دھندلی سی پرچھائیاں ہیں یا خلقت اٹھائے سنگ ملامت ڈرا رہی ہے مجھے کھلا وہ ایک دریچہ گھنے درختوں میں وہ سبز پوش ہوا پھر بلا رہی ہے مجھے مجھے تو چاند کہیں بھی نظر نہیں آتا کوئی کرن سی مگر جگمگا رہی ہے ...

    مزید پڑھیے

    جگ مگ جگ مگ اس کی آنکھیں میرا سینہ جلتا تھا

    جگ مگ جگ مگ اس کی آنکھیں میرا سینہ جلتا تھا چاند ہمارے آگے آگے مشعل لے کر چلتا تھا راہ گزر تھی مہکی مہکی ایک طلسمی خوشبو سے تیز ہوا میں اس کا آنچل کیا کیا رنگ بدلتا تھا جھلمل جھلمل کرتے سپنے پہلی پہلی چاہت کے سینۂ شب پر اس کے قدم تھے یا خورشید نکلتا تھا پھول سا چہرہ دہکا دہکا ...

    مزید پڑھیے

    سنگ دشنام کو گوہر جانا

    سنگ دشنام کو گوہر جانا ہم نے دشمن کو بھی دل بر جانا ننگ الفت ہی رہا پروانہ اس کو آتا ہے فقط مر جانا پوچھ لینا در و دیوار کا حال اے بگولو جو مرے گھر جانا سر قلم کرتے رہے ظلم کے ہاتھ یار لوگوں نے مقدر جانا کم نگاہی نے ڈبویا ہم کو ایک قطرے کو سمندر جانا تیشہ بردار کو فرہاد ...

    مزید پڑھیے

    اک ترنم سا مرے پاؤں کی زنجیر میں ہے

    اک ترنم سا مرے پاؤں کی زنجیر میں ہے پھر کوئی فصل بہاراں مری تقدیر میں ہے جھلملاتے ہیں ستارے کہ دیے جلتے ہیں کچھ اجالا سا تری زلف گرہ گیر میں ہے کچھ ترا حسن بھی ہے سادہ و معصوم بہت کچھ مرا پیار بھی شامل تری تصویر میں ہے اور بڑھتی ہے اسی شخص کی چاہت ناصح یہ کرامات عجب آپ کی تقریر ...

    مزید پڑھیے

    ان گھٹاؤں میں اجالے کا بسیرا ہی سہی

    ان گھٹاؤں میں اجالے کا بسیرا ہی سہی خیر اگر آپ بضد ہیں تو سویرا ہی سہی اے غم زیست بلاتی ہیں مہکتی زلفیں آج کی رات یہ پر نور اندھیرا ہی سہی دل میں جو آگ لگی ہے وہ کہاں بجھتی ہے راہ شاداب سہی ابر گھنیرا ہی سہی ہوشیار اہل خرد خاک نشیں آ پہنچے آپ کے زعم کا افلاک پہ ڈیرا ہی سہی تو ...

    مزید پڑھیے

    شاخ شاخ پر موسم گل نے گجرے سے لٹکائے تھے

    شاخ شاخ پر موسم گل نے گجرے سے لٹکائے تھے میں نے جس دم ہاتھ بڑھایا سارے پھول پرائے تھے کتنے درد چمک اٹھتے ہیں فرقت کے سناٹے میں رات رات بھر جاگ کے ہم نے خود پہ زخم لگائے تھے تیرے غموں کا ذکر ہی کیا اب جانے دے یہ بات نہ چھیڑ ہم دیوانے ملک جنوں میں بخت‌ سکندر لائے تھے دل کی ویراں ...

    مزید پڑھیے

    چشم نم لے کے چلو قلب تپاں لے کے چلو

    چشم نم لے کے چلو قلب تپاں لے کے چلو ایک پتھر کے لئے شعلۂ جاں لے کے چلو شاید اس کو بھی شب ہجر نظر آ جائے اپنی پلکوں پہ چراغوں کا دھواں لے کے چلو اس کو چاہا ہے تو پھر سنگ ملامت بھی چنو پھول توڑے ہیں تو اب کوہ گراں لے کے چلو بے حقیقت ہیں وہاں لعل و گہر شمس و قمر دشمن جاں کے لئے تحفۂ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2