تیری یادوں میں کھوئے رہیں میری جاں

تیری یادوں میں کھوئے رہیں میری جاں
اتنی مہلت کسے اتنی فرصت کہاں


جس جگہ ٹپ سے آنسو کا قطرہ گرا
ایک شعلہ سا بھڑکا وہیں ناگہاں


ہم سے کیا پوچھتے ہو ہمیں کیا خبر
آگ کیوں لگ گئی آشیاں آشیاں


ہم بھٹکتے رہے دشت ظلمات میں
پھول ہنستے رہے گلستاں گلستاں


ہائے وہ اجنبی لوگ اک شہر کے
آشنا آشنا مہرباں مہرباں


سچ ہے تو نے کبھی مجھ کو چاہا نہ تھا
دل کہاں، ایک ہونے کی صورت کہاں


تو نے کب مجھ سے باندھا تھا عہد وفا
خارزاروں میں بستی نہیں تتلیاں


نورؔ تاریکیاں اس قدر بڑھ گئیں
مٹ گئے چاند راتوں کے سارے نشاں