نور بجنوری کے تمام مواد

20 غزل (Ghazal)

    یہاں کسی نے چراغ وفا جلایا تھا

    یہاں کسی نے چراغ وفا جلایا تھا تبھی یہ غم کدۂ دل بھی جگمگایا تھا جنوں کی شوخ اداؤں نے فاش کر ہی دیا وہ ایک راز خرد نے جسے چھپایا تھا شب بہار کی شہزادیو! خبر ہے تمہیں ابھی ابھی کوئی ناشاد مسکرایا تھا سلگ رہی ہیں امنگیں تو سوچتا ہوں میں بہت ہی خشک تری زلفوں کا نرم سایہ تھا یہ ...

    مزید پڑھیے

    زلزلہ آیا وہ دل میں وقت کی رفتار سے

    زلزلہ آیا وہ دل میں وقت کی رفتار سے خود بخود تصویر تیری گر پڑی دیوار سے چپکے چپکے کھینچتا جاتا ہوں کانٹوں کا حصار میں کہ اب ڈرنے لگا ہوں پھول کی مہکار سے ہم بلا نوشوں نے زہر آگہی بھی پی لیا چلتے چلتے ہم بھی ٹھوکر کھا گئے کہسار سے جن کو آنکھوں سے لگایا جن کو رو رو کر پڑھا ہائے وہ ...

    مزید پڑھیے

    وہی محتسب کی ملامتیں وہی ایک واضح حسیں مری

    وہی محتسب کی ملامتیں وہی ایک واضح حسیں مری وہی رنگ رنگ سبو مرا وہی داغ داغ جبیں مری ترا شہر شہر عجیب ہے یہاں کون ہے جو غریب ہے کوئی کہہ رہا ہے فلک مرا کوئی کہہ رہا ہے زمیں مری مری حسرتوں کے دیار میں تری جستجو سے بہار ہے ترا نقش پا ہے جہاں کہیں ہے جبین شوق وہیں مری اسی آئینے میں ...

    مزید پڑھیے

    عقل نے لاکھ اندھیروں میں چھپایا ہے تجھے

    عقل نے لاکھ اندھیروں میں چھپایا ہے تجھے میرا وجدان مگر چوم کے آیا ہے تجھے وہ طلسمات نظر آئے کہ دیکھے نہ سنے جب بھی آنکھوں کے چراغوں میں جلایا ہے تجھے رات بھیگی ہے تو چھیڑا ہے ترے درد کا ساز چاند نکلا ہے تو چپکے سے جگایا ہے تجھے میں تو کیا وقت بھی اب چھو نہ سکے گا تجھ کو عشق نے ...

    مزید پڑھیے

    تمام رات ہوا چیختی رہی بن میں

    تمام رات ہوا چیختی رہی بن میں تمام رات اڑی خاک دل کے آنگن میں ہے عقل زہر جنوں زہر عقل کا تریاک یہ راز کھل ہی گیا ہم پہ باؤلے پن میں یہ جگنوؤں کی چتائیں یہ سوگوار فضا سلگ اٹھے ہیں شرارے نظر کے دامن میں سحر ہوئی تو بگولوں کا رقص دیکھیں گے خزاں نے ہم کو بلایا ہے صحن گلشن میں میں اس ...

    مزید پڑھیے

تمام