سنگ دشنام کو گوہر جانا
سنگ دشنام کو گوہر جانا
ہم نے دشمن کو بھی دل بر جانا
ننگ الفت ہی رہا پروانہ
اس کو آتا ہے فقط مر جانا
پوچھ لینا در و دیوار کا حال
اے بگولو جو مرے گھر جانا
سر قلم کرتے رہے ظلم کے ہاتھ
یار لوگوں نے مقدر جانا
کم نگاہی نے ڈبویا ہم کو
ایک قطرے کو سمندر جانا
تیشہ بردار کو فرہاد کہا
آئینہ گر کو سکندر جانا
ہم حقیقت میں تھے کہسار مگر
خود کو ذروں سے بھی کم تر جانا