Nizam Rampuri

نظام رامپوری

نظام رامپوری کی غزل

    اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی

    اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی جو کہے سن کے کیا کرے کوئی ہم بھی کیا کیا کہیں خدا جانے گر ہماری سنا کرے کوئی ہائے وہ باتیں پیار کی شب وصل بھولے کیا یاد کیا کرے کوئی لوگ کیوں پوچھتے ہیں حال مرا ذکر کس بات کا کرے کوئی درد دل کا علاج ہو کس سے یوں مسیحا ہوا کرے کوئی بے وفا گر کہوں تو ...

    مزید پڑھیے

    کہیے گر ربط مدعی سے ہے

    کہیے گر ربط مدعی سے ہے کہتے ہیں دوستی تجھی سے ہے دیکھیے آگے آگے کیا کچھ ہو دل کی حرکت یہ کچھ ابھی سے ہے اس کی الفت میں جیتے جی مرنا فائدہ یہ بھی زندگی سے ہے ضد ہے گر ہے تو ہو سبھی کے ساتھ یا نہ ملنے کی ضد مجھی سے ہے خوف سے تم سے کہہ نہیں سکتے دل میں اک آرزو کبھی سے ہے مجھ سے پوچھو ...

    مزید پڑھیے

    وہی لوگ پھر آنے جانے لگے

    وہی لوگ پھر آنے جانے لگے مرے پاس کیوں آپ آنے لگے کوئی ایسے سے کیا شکایت کرے بگڑ کر جو باتیں بنانے لگے یہ کیا جذب دل کھینچ لایا انہیں مرے خط مجھے پھر کے آنے لگے ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے ہمارے ہی آگے گلے غیر کے ہماری ہی طرزیں اڑانے لگے نہ بن آیا ...

    مزید پڑھیے

    کہنے سے نہ منع کر کہوں گا

    کہنے سے نہ منع کر کہوں گا تو میری نہ سن مگر کہوں گا تم آپ ہی آئے یوں ہی سچ ہے نالے کو نہ بے اثر کہوں گا گر کچھ بھی سنیں گے وہ شب وصل کیا کیا نہ میں تا سحر کہوں گا کہتے ہیں جو چاہتے ہیں دشمن میں اور تمہیں فتنہ گر کہوں گا کہتے تو یہ ہو کہ تو ہے اچھا مانو گے برا اگر کہوں گا یوں دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    جو سرگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے

    جو سرگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے جو یاد آئیں گی تیری باتیں تو چپ ہی پہروں رہا کریں گے جو چاہو کہہ لو یہی خوشی ہے تو ہم بھی پھر کیوں گلا کریں گے جو کچھ سنائے گی اپنی قسمت تمہارے منہ سے سنا کریں گے کسے غرض ہے پھر آپ کو کیوں صنم کا بندا کہا کریں گے جو یوں ہی ہم کو ...

    مزید پڑھیے

    کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا

    کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا تم سے کس روز ربط تھا میرا نامہ بر اس نے تو کہا سب کچھ تو نے بھی حال کچھ کہا میرا اب تو خواہاں وصال کا بھی نہیں کچھ عجب ہے معاملہ میرا اور کس کو سناتے ہو مجھ کو اور کس کا یہ ذکر تھا میرا یہ بھی کیا بات آئی اس دن کی یہ بھی کہیے قصور تھا میرا مجھ سے پھر ...

    مزید پڑھیے

    گر دوستو تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا

    گر دوستو تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا کہنے کا تمہارے مجھے شکوا نہیں ہوتا گر کہیے کہ جی ملنے کو تیرا نہیں ہوتا کہتا ہے کہ ہاں ہاں نہیں ہوتا نہیں ہوتا قاصد کے بھی گر آنے کی امید نہ ہوتی اک دم بھی تو جینے کا بھروسا نہیں ہوتا یوں ہی سہی ہم ہجر میں مر جاتے بلا سے بس اور تو کچھ اس سے ...

    مزید پڑھیے

    خبر نہیں کئی دن سے وہ دق ہے یا خوش ہے

    خبر نہیں کئی دن سے وہ دق ہے یا خوش ہے خوشی تبھی ہو کہ جب سن لوں دل ربا خوش ہے ذرا بھی بگڑے تو بگڑے زمانہ سب مجھ سے خوشی ہے وہ تو ہر اک دوست آشنا خوش ہے پڑا ہوں جب سے کہ بیمار ہو کے میں گھر میں ہر ایک غیر عداوت سے پھرتا کیا خوش ہے مگر ہے اس کی عنایت تو غم نہیں کچھ بھی وہ مجھ سے خوش ...

    مزید پڑھیے

    یاں کسے غم ہے جو گریہ نے اثر چھوڑ دیا

    یاں کسے غم ہے جو گریہ نے اثر چھوڑ دیا ہم نے تو شغل ہی اے دیدۂ تر چھوڑ دیا دل بے تاب کا کچھ دھیان نہ آیا اس دم ہائے کیوں ہم نے اسے وقت سحر چھوڑ دیا کیا ستائے نہیں جاتے ہیں ولیکن چپ ہیں شکوہ کرنا ترا اے رشک قمر چھوڑ دیا دم رخصت کبھی کچھ دل کی تمنا نہ کہی دامن یار ادھر پکڑا ادھر چھوڑ ...

    مزید پڑھیے

    صدمے یوں غیر پر نہیں آتے

    صدمے یوں غیر پر نہیں آتے تمہیں جور اس قدر نہیں آتے پھر تسلی کی کون سی صورت خواب میں بھی نظر نہیں آتے آتے ہیں جب کہ ناامید ہوں ہم کبھی وہ وعدے پر نہیں آتے روز کے انتظار نے مارا صاف کہہ دو اگر نہیں آتے نہیں معلوم اس کا کیا باعث روز کہتے ہیں پر نہیں آتے اور تم کس کے گھر نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5