تم سے کچھ کہنے کو تھا بھول گیا
تم سے کچھ کہنے کو تھا بھول گیا ہاے کیا بات تھی کیا بھول گیا بھولی بھولی جو وہ صورت دیکھی شکوۂ جور و جفا بھول گیا دل میں بیٹھا ہے یہ خوف اس بت کا ہاتھ اٹھے کہ دعا بھول گیا خوش ہوں اس وعدہ فراموشی سے اس نے ہنس کر تو کہا بھول گیا حال دل سنتے ہی کس لطف سے ہاے کچھ کہا کچھ جو رہا بھول ...