Nizam Rampuri

نظام رامپوری

نظام رامپوری کی غزل

    فکر یہی ہے ہر گھڑی غم یہی صبح و شام ہے

    فکر یہی ہے ہر گھڑی غم یہی صبح و شام ہے گر نہ ملا وہ کچھ دنوں کام یہاں تمام ہے اب ہیں ہمارے نام پر سیکڑوں گالیاں یہ لطف کہتے تھے تم میاں میاں وہ ہی تو یہ غلام ہے خیر نہ ملیے روز روز یوں ہی سہی کبھی کبھی اس سے بھی انحراف ہے اس میں بھی کچھ کلام ہے اے دل بے قرار کچھ کر وہ رکے تو رکنے ...

    مزید پڑھیے

    دل پہ جو گزرے ہے میرے آہ میں کس سے کہوں

    دل پہ جو گزرے ہے میرے آہ میں کس سے کہوں کیا کروں میں اے مرے اللہ میں کس سے کہوں جب نہ تم ہی حال دل میرا کبھی آ کر سنو تو یہ فرماؤ مجھے، اللہ میں کس سے کہوں میرے صاحب کے ذرا سے ربط پر بگڑیں نہ غیر غیر سے تم سے جو کچھ ہے راہ میں کس سے کہوں دوستو اب کہنے سننے سے نہیں کچھ فائدہ وہ تو ...

    مزید پڑھیے

    ہو کے بس انسان حیراں سر پکڑ کر بیٹھ جائے

    ہو کے بس انسان حیراں سر پکڑ کر بیٹھ جائے کیا بن آئے اس گھڑی جب وہ بگڑ کر بیٹھ جائے تو وہ آفت ہے کوئی تجھ سے اٹھا سکتا ہے دل دیکھ لے کوئی جو تجھ کو دل پکڑ کر بیٹھ جائے وصل میں بھی اس سے کہہ سکتا نہیں کچھ خوف سے دور کھچ کر پاس سے میرے نہ مڑ کر بیٹھ جائے دوستو میری نہیں تقصیر دل دینے ...

    مزید پڑھیے

    جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں

    جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں جو کچھ کہوں تو کہیں قینچی ہے زباں منہ میں یہ ایک بات ہے قاصد جو بھیجتا ہوں تجھے وگرنہ دل میں جو ان کے ہے وہ یہاں منہ میں زمیں کا کر دیا پیوند ہم کو اے ظالم! نہ اب بھی خاک پڑے تیرے آسماں منہ میں نہ کان رکھ کے کسی نے سنی ہزار افسوس تمام عمر ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو شب وصال بھی رنج و محن ہوا

    ہم کو شب وصال بھی رنج و محن ہوا قسمت خلاف طبع ہوا جو سخن ہوا پھر آنے کی ہوس میں سحر کس خوشی کے ساتھ ہم راہ نالہ درد جگر بھی معن ہوا گردش بھی اس کے کوچے میں ہے اور قرار بھی قسمت تو دیکھیے کہ سفر میں وطن ہوا قاتل ادائے شکر کو یا شکوؤں کے لیے جو زخم جسم پر ہوا گویا دہن ہوا ثابت قدم ...

    مزید پڑھیے

    جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں

    جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں اے ستم گر تیرے دل میں اپنا گھر پیدا کروں یاں تو یہ عادت ہے کس کس کا کرے گا تو علاج روز بیماری سے میں دو چار اگر پیدا کروں یہ تغافل وصل کی شب پوچھتے ہیں میرا حال اب دعائیں مانگ کر درد جگر پیدا کروں آنکھ اٹھا کر جس طرف دیکھوں وہی آئے نظر آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    مزا کیا جو یوں ہی سحر ہو گئی

    مزا کیا جو یوں ہی سحر ہو گئی نہیں بھی پہر دو پہر ہو گئی ترے غم میں شب یوں بسر ہو گئی غرض روتے روتے سحر ہو گئی نہ آئینہ ہر وقت دیکھا کرو کہوگے کسی کی نظر ہو گئی جو باندھی کمر قتل عشاق پر کمر تو نہ تھی پر کمر ہو گئی سبب ان کی رنجش کا کہنا نہیں کوئی پوچھے کس بات پر ہو گئی لبوں پر ...

    مزید پڑھیے

    صاف باتوں میں تو کدورت ہے

    صاف باتوں میں تو کدورت ہے اور لگاوٹ سے ظاہر الفت ہے غیر سے بھی کبھی تو بگڑے گی روٹھنا تو تمہاری عادت ہے آپ کے لطف میں تو شک ہی نہیں دل کو کس بات کی شکایت ہے اس ستم گر سے شکوہ کیسے ہو اور الٹی مجھے ندامت ہے بولے دکھلا کے آئینہ شب وصل دیکھیے تو یہی وہ صورت ہے موت کو بھی نظر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    واں تو ملنے کا ارادہ ہی نہیں

    واں تو ملنے کا ارادہ ہی نہیں یاں وہ خواہش ہے کہ ہوتا ہی نہیں یوں ستانے کے تو لائق تھے نہ ہم آپ نے کچھ ہمیں سمجھا ہی نہیں جس سے تسکیں ہو مری اے قاصد ایسی تو بات تو کہتا ہی نہیں اور بھی ایسی تو باتیں ہیں بہت گلۂ رنجش بے جا ہی نہیں لے گئیں نیچی نگاہیں دل کو آنکھ اٹھا کر ابھی دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے کیوں کہتے ہو مضموں غیر کی تحریر کا

    مجھ سے کیوں کہتے ہو مضموں غیر کی تحریر کا جانتا ہوں مدعا میں آپ کی تقریر کا ساتھ گر سونے نہ دو گے تم کو بھی نیند آ چکی میں تو عادی ہو گیا ہوں نالۂ شب گیر کا اپنے مطلب کی سمجھ کر ہو گئے تھے ہم تو خوش کیوں مکرتے ہو یہی مطلب ہے اس تقریر کا عہد کس کا، آپ جو کہتے اسے سچ جانتا کیا کروں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5