نہال رضوی کی غزل

    حصار جسم سے آزاد ہونے والا ہوں

    حصار جسم سے آزاد ہونے والا ہوں کسی کو پا کے کسی شے کو کھونے والا ہوں جو مٹ گئے ہیں وہ اقدار جمع کرنے ہیں بکھر گئے ہیں جو موتی پرونے والا ہوں ہے قحط آب کا منظر تو چار سو لیکن میں اپنی چشم حقیقت بھگونے والا ہوں میں اپنے درد کے طوفاں دبائے سینے میں ہنسا چکا ہوں زمانے کو رونے والا ...

    مزید پڑھیے

    خود کو دیکھوں کہ میں جہاں دیکھوں

    خود کو دیکھوں کہ میں جہاں دیکھوں اک نظر سے کہاں کہاں دیکھوں سر کو رکھ کر زمیں کے قدموں پر کب تلک سوئے آسماں دیکھوں ہو کے بھی تو وہاں نہیں ملتا تجھ کو جا کر جہاں جہاں دیکھوں میں اسی کشمکش میں ڈوب گیا پار اتروں کہ درمیاں دیکھوں سنگ بھی ہیں شکستہ شیشے بھی جسم دیکھوں کہ اپنی جاں ...

    مزید پڑھیے

    سنگ ہو یا آئنہ سب کی کہانی ایک ہے

    سنگ ہو یا آئنہ سب کی کہانی ایک ہے آگ سب کی ایک ہے اور سب کا پانی ایک ہے کچھ حقیقت آشنا ہیں اب بھی گو تھوڑے سہی اس نئی دنیا میں بھی دنیا پرانی ایک ہے قلب اور احساس سے یکساں ہے سب کا سلسلہ ہوں جنوں والے کہیں بھی راجدھانی ایک ہے حاکمان عہد نو سب مصلحت کے ہیں غلام ہو کہیں کا کوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2