ترک تعلقات پہ مجبور ہو گیا
ترک تعلقات پہ مجبور ہو گیا خوشبو سے اک گلاب بہت دور ہو گیا حرف و کتاب آج بھی ہیں منتظر ترے معنی ترے فراق میں رنجور ہو گیا گرچہ تمام عمر رہا خواب میں مرے دیکھا جو آنکھ بھر کے تو مستور ہو گیا ہر فیصلے کے بیچ ہے شامل ترا خیال تو میری کائنات کا منشور ہو گیا آئی ہے آنکھ اپنے نظارے ...