وہ ہم سفر ہے مگر پھر بھی ہم زباں تو نہیں
وہ ہم سفر ہے مگر پھر بھی ہم زباں تو نہیں
چھپا ہے مجھ سے مگر خود پہ بھی عیاں تو نہیں
مرے خیال کی دنیا میں گرچہ رہتا ہے
مرے خیال کی دنیا کا آسماں تو نہیں
یہ میری فکر کے سورج میں جو شرارے ہیں
یہ میری فکر کے محور کا امتحاں تو نہیں
دھڑک رہے ہو مری آنکھ کے نظارے میں
مرے مکان کے اندر ترا مکاں تو نہیں
بسایا سوچ کی محفل میں جس کو نیلمؔ نے
ظہور حرف ہے معنی میں بھی نہاں تو نہیں