خیال یار کی گلیوں سے جب گزرتے ہیں
خیال یار کی گلیوں سے جب گزرتے ہیں
نئے غرور سے فرقت کے داغ جلتے ہیں
نمی ہے آنکھ میں گو کہ تمہاری یادوں کی
اسی بہانے کئی اور غم برستے ہیں
وصال یار کا موسم تھا میری چوڑی تھی
کلائیوں پہ ابھی تک وہ پل دھڑکتے ہیں
نگاہ یار کو کیسے غزل کروں گی میں
کہ اس کے دیکھنے سے قافیے بہکتے ہیں
ہزار سال طوالت ہے اس جدائی کی
ہزار آنکھ میں آنسو ابھی سلگتے ہیں
ہمارے بام پہ رکتا ہے اس تسلسل سے
پرانے درد نئے چاند میں دمکتے ہیں
وہ میری پہلی محبت کا عکس ہے نیلمؔ
اسی پہ حرف محبت تمام کرتے ہیں