Nazeer Mirza Barlas

نذیر مرزا برلاس

نذیر مرزا برلاس کے تمام مواد

2 غزل (Ghazal)

    جلا کر آسماں رکھ دیں الٹ کر یہ زمیں رکھ دیں

    جلا کر آسماں رکھ دیں الٹ کر یہ زمیں رکھ دیں کسی کے آستاں پر آہ کھینچیں اور جبیں رکھ دیں فلک بجلی گرائے باغباں ظلم و ستم توڑے یہ اپنے چار تنکے ہی اٹھا کر ہم کہیں رکھ دیں سر سودا زدہ میں مضطرب سجدے معاذ اللہ کسی کا سامنا ہو پائے نازک پر جبیں رکھ دیں فرشتے لیتے جائیں اپنے دامن میں ...

    مزید پڑھیے

    پریشاں خاطری میں لب پہ کیوں آئے دعا میری

    پریشاں خاطری میں لب پہ کیوں آئے دعا میری نہ رسوائے جہان آرزو ہوگی وفا میری مجھے عہد گزشتہ کی وفائیں یاد آتی ہیں مری اس انتہا سے خوب تھی وہ ابتدا میری مری فطرت کا مقصد ہے تغیر آشنا رہنا نہ غم ہی مستقل میرا نہ راحت دیر پا میری مقدر میں نہیں ہے کامران آرزو ہونا سزاوار اجابت ہو ...

    مزید پڑھیے

6 نظم (Nazm)

    رنگین وادی

    افق کے اس طرف کہتے ہیں اک رنگین وادی ہے وہاں رنگینیاں کہسار کے دامن میں سوتی ہیں گلوں کی نکہتیں ہر چار سو آوارہ ہوتی ہیں وہاں نغمے صبا کی نرم رو موجوں میں بہتے ہیں وہاں آب رواں میں مستیوں کے رقص رہتے ہیں وہاں ہے ایک دنیائے ترنم آبشاروں میں وہاں تقسیم ہوتا ہے تبسم لالہ زاروں ...

    مزید پڑھیے

    شاعر کی دنیا

    میری دنیا حسین دنیا ہے جس میں سورج ہے چاند تارے ہیں روز و شب حسن کے نظارے ہیں شب کی محفل سجی ہے تاروں سے جی بہلتا ہے ماہ پاروں سے رات کو تارے جگمگاتے ہیں خود بخود گیت یاد آتے ہیں کرنیں لیتی ہیں روپ پریوں کا چاند راتیں ہیں رقص کے دریا ہیں شعاعوں میں بجلیاں رقصاں امڈ آئے ہیں نور کے ...

    مزید پڑھیے

    گل فروش

    یہ نازنیں کہ جسے قاصد بہار کہیں جواں حسینہ کہ فطرت کا شاہکار کہیں پیام آمد فصل بہار دیتی ہے جنوں نصیب دلوں کی دعائیں لیتی ہے اسے چمن کے ہر اک پھول سے محبت ہے اسے بہار کی رعنائیوں سے الفت ہے گلوں میں پھرتی ہے یوں جیسے تیتری کوئی چمن کی سیر کرے یا حسیں پری کوئی جو پھول چنتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    ماحول

    اب ستاروں میں جوانی نہیں رقصاں کوئی چاند کے نور میں نغمات کے سیلاب نہیں دل میں باقی نہیں امڈا ہوا طوفاں کوئی روح اب حسن اچک لینے کو بیتاب نہیں اب فروزاں سی نہیں قوس قزح کی راہیں انہی راہوں سے افق پار سے گھوم آتے تھے منتظر اب نہیں فطرت کی گلابی باہیں ہم جنہیں جا کے شفق زار سے چوم ...

    مزید پڑھیے

    الجھن

    چاند کی نذر کیے میں نے نظر کے سجدے حسن معصوم کے جلووں کا پرستار رہا میں نے تاروں پہ نگاہوں کی کمندیں پھینکیں ایک رنگین حقیقت کا طلب گار رہا ذہن کے پردے پہ رقصاں ہے کوئی عکس جمیل حسن کے روپ میں شاید وہ یکایک مل جائے ہر نئے جلوے سے بے ساختہ یوں لپٹا ہوں جیسے بچھڑا ہوا اک دوست یکایک ...

    مزید پڑھیے

تمام