جلا کر آسماں رکھ دیں الٹ کر یہ زمیں رکھ دیں
جلا کر آسماں رکھ دیں الٹ کر یہ زمیں رکھ دیں
کسی کے آستاں پر آہ کھینچیں اور جبیں رکھ دیں
فلک بجلی گرائے باغباں ظلم و ستم توڑے
یہ اپنے چار تنکے ہی اٹھا کر ہم کہیں رکھ دیں
سر سودا زدہ میں مضطرب سجدے معاذ اللہ
کسی کا سامنا ہو پائے نازک پر جبیں رکھ دیں
فرشتے لیتے جائیں اپنے دامن میں مرے آنسو
محبت کے ستارے عرش عالی کے قریں رکھ دیں
نذیرؔ ان کی شباب افروز لغزش کا تقاضا ہے
خراب شوق سجدہ حاصل دنیا و دیں رکھ دیں