پریشاں خاطری میں لب پہ کیوں آئے دعا میری
پریشاں خاطری میں لب پہ کیوں آئے دعا میری
نہ رسوائے جہان آرزو ہوگی وفا میری
مجھے عہد گزشتہ کی وفائیں یاد آتی ہیں
مری اس انتہا سے خوب تھی وہ ابتدا میری
مری فطرت کا مقصد ہے تغیر آشنا رہنا
نہ غم ہی مستقل میرا نہ راحت دیر پا میری
مقدر میں نہیں ہے کامران آرزو ہونا
سزاوار اجابت ہو نہیں سکتی دعا میری
نظیرؔ اپنے جنوں کی شوخیاں ہیں یاد اب تک بھی
طبیعت تھی قیامت کی سکوں نا آشنا میری