Nasim Khan

نسیم خان

  • 1998

نسیم خان کی نظم

    محسوس کرو

    روشندان سے آتی آدھی روشنی کا دکھ جس کا حمل کبھی نہیں ٹھہرے گا محسوس کرو کمرے کی تشنگی کو جیسے کسی باکرہ کے ننگے بدن کو پلنگ پر سلگتا ہوا چھوڑ دیا گیا ہو محسوس کرو اندھیرے کی ذات کو جو کمرے میں بغیر ڈھول کی تھاپ کے ناچ رہی ہے محسوس کرو اس گھٹن کو جس کے روشندان سے نکلنے کا راستہ ...

    مزید پڑھیے

    پینٹنگ

    کھڑکی سے نکلنے والے ہاتھ میرا گلا دبوچ سکتے ہیں تنہائی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ٹرین سے میری لاش مل سکتی ہے تمہاری انگلیوں کے نشان قبرستان میں رینگنے والی نظموں کے پیر چھل گئے ہیں تمہارے سینے پر چلتے چلتے کوہ پیما پاتال میں جا گرتا ہے اوپر آسمان پر دل نقش ہوتا ہے

    مزید پڑھیے

    ڈائری میں لکھا میں

    جب پہاڑ رو رہے تھے میرا جنم ہوا میں اپنا خواب بیری کے پیڑوں میں بو کر مسکراہٹ کی تلاش میں نکل پڑا رستے میں مجھے ایک ڈایری ملی جس کے پہلے صفحے پر درج تھا زندگی خود بخود کوئی فیصلہ نہیں کرتی بلکہ یہ محض آپ کے فیصلوں کے انجام سے آپ کو ملاتی ہے ڈایری کے باقی صفحے بالکل چپ تھے میں کسی ...

    مزید پڑھیے

    بینر پر لکھے خواب

    ایک سرد دن ایک گرم بوسے کے ساتھ گزارا جا سکتا ہے اور ایک بوسہ بچایا جا سکتا ہے اگلے دن کے لئے ایک گرم دن گزار سکتے ہیں کسی سرد آہ کے ساتھ اور سرد پڑ سکتے ہیں اگلے دن بینر پر لکھے جا سکتے ہیں اپنے خواب اور رات کو آگ میں جھونک سکتے ہیں اپنی آنکھیں ایک صدی گزار سکتے ہیں کسی موڑ پہ ...

    مزید پڑھیے