Nashtar Khaanqahi

نشتر خانقاہی

ممتاز جدید شاعر

One of prominent modern poets. Disciple of Yas Yagana Changezi

نشتر خانقاہی کی غزل

    خوش فہمیوں کو درد کا رشتہ عزیز تھا

    خوش فہمیوں کو درد کا رشتہ عزیز تھا کاغذ کی ناؤ تھی جسے دریا عزیز تھا اے تنگئی دیار تمنا بتا مجھے وہ پانو کیا ہوئے جنہیں صحرا عزیز تھا پوچھو نہ کچھ کہ شہر میں تم ہو نئے نئے اک دن مجھے بھی سیر و تماشا عزیز تھا بے آس انتظار و توقع بغیر شک اب تم سے کیا کہیں ہمیں کیا کیا عزیز ...

    مزید پڑھیے

    میرے بدن کی آگ ہی جھلسا گئی مجھے

    میرے بدن کی آگ ہی جھلسا گئی مجھے دیکھا جو آئنہ تو ہنسی آ گئی مجھے میری نمود کیا ہے بس اک تودۂ سیاہ کوندی کبھی جو برق تو چمکا گئی مجھے جیسے میں اک سبق تھا کبھی کا پڑھا ہوا اٹھی جو وہ نگاہ تو دہرا گئی مجھے ہر صبح میں نے خود کو بہ مشکل بہم کیا آئی جو غم کی رات تو بکھرا گئی مجھے میں ...

    مزید پڑھیے

    چھا گیا سر پہ مرے گرد کا دھندلا بادل

    چھا گیا سر پہ مرے گرد کا دھندلا بادل اب کے ساون بھی گیا مجھ پہ نہ برسا بادل سیپ بجھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھتے ہیں کیسی برسات مری جان کہاں کا بادل وہ بھی دن تھے کہ ٹپکتا تھا چھتوں سے پہروں اب کے پل بھر بھی منڈیروں پہ نہ ٹھہرا بادل فرش پر گر کے بکھرتا رہا پارے کی طرح سبز باغوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کشش تو اب بھی غضب کی ہے نازنینوں میں

    کشش تو اب بھی غضب کی ہے نازنینوں میں مگر وہ چاند چمکتا نہیں جبینوں میں یہ سب کے چہروں میں یکسانیت سی کیسی ہے حسین تر کوئی جچتا نہیں حسینوں میں جو میرے ذہن میں تھی سبزہ زار خواب میں تھی کہاں وہ فصل اگائی گئی زمینوں میں شعور عمر سے افزوں ہوئی ہے عمر شعور ہمارے سال گزرنے لگے ...

    مزید پڑھیے

    اپنا بیمار ہے دل عشق کا بیمار نہیں

    اپنا بیمار ہے دل عشق کا بیمار نہیں خود تشفی کے سوا ہجر کا آزار نہیں تیرگی ایسی غضب کی کہ عیاذاً باللہ ایسا لگتا ہے کہ گھر ہے در و دیوار نہیں حشر کے بعد بھی ویراں ہی رہے گی جنت کون حق دار ہے کوئی بھی تو حق دار نہیں تہ میں کچھ اور ہیں اوپر سے ہیں خبریں کچھ اور با خبر تم بھی نہیں میں ...

    مزید پڑھیے

    قہر تھا ہجرت میں خود کو بے اماں کرنا ترا

    قہر تھا ہجرت میں خود کو بے اماں کرنا ترا دشت نامحفوظ اور اس میں مکاں کرنا ترا اس کہانی میں مرا کردار ہی گویا نہ تھا یوں حقیقت کو مری بے داستاں کرنا ترا چھن گیا آکاش کا خیمہ تو شام ہجر میں کچھ دھوئیں کے بادلوں کو آسماں کرنا ترا اف! یہ مجبوری کہ جب سارے نشیمن جل گئے ٹوٹنے والے شجر ...

    مزید پڑھیے

    دھڑکا تھا دل کہ پیار کا موسم گزر گیا

    دھڑکا تھا دل کہ پیار کا موسم گزر گیا ہم ڈوبنے چلے تھے کہ دریا اتر گیا خوابوں کی وہ متاع گراں کس نے چھین لی کیا جانیے وہ نیند کا عالم کدھر گیا تم سے بھی جب نشاط کا اک پل نہ مل سکا میں کاسۂ سوال لئے در بدر گیا بھولے سے کل جو آئنہ دیکھا تو ذہن میں اک منہدم مکان کا نقشہ اتر گیا تیز ...

    مزید پڑھیے

    دھجی دھجی جبہ و دستار ہوتے دیکھنا

    دھجی دھجی جبہ و دستار ہوتے دیکھنا میرؔ کو بے عاشقی بھی خوار ہوتے دیکھنا کثرت دانشوراں کو قحط دانش جاننا وسعتوں کو دشت کی دیوار ہوتے دیکھنا رکنے والی ہے فشار دم سے نبض انحراف خود کو اب سر تا بہ پا انکار ہوتے دیکھنا پیر صد سالہ سے سننا قصۂ آسودگی لمحہ لمحہ زیست کو دشوار ہوتے ...

    مزید پڑھیے

    بہت قریب ہے پت جھڑ کی رت پلک نہ اٹھا

    بہت قریب ہے پت جھڑ کی رت پلک نہ اٹھا زمیں سے عکس اٹھا دھوپ کی چمک نہ اٹھا غلاف سنگ میں لپٹا ہوا ہے شہر کا شہر چلی ہوا تو زمیں سے غبار تک نہ اٹھا قدم قدم پہ یہ ڈر تھا کہ گھات میں ہے کوئی یہاں تو پائے تفکر میں تھی جھجک نہ اٹھا پھر اپنا اپنا کفن لے کے چل دیئے سب لوگ کسی سے بار غم مرگ ...

    مزید پڑھیے

    تعمیر ہم نے کی تھی ہمیں نے گرا دیے

    تعمیر ہم نے کی تھی ہمیں نے گرا دیے شب کو محل بنائے سویرے گرا دیے کمزور جو ہوئے ہوں وہ رشتے کسے عزیز پیلے پڑے تو شاخ نے پتے گرا دیے اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے پتھر سے دل کی آگ سنبھالی نہیں گئی پہنچی ذرا سی چوٹ پتنگے گرا دیے برسوں ہوئے تھے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4