خوش فہمیوں کو درد کا رشتہ عزیز تھا
خوش فہمیوں کو درد کا رشتہ عزیز تھا کاغذ کی ناؤ تھی جسے دریا عزیز تھا اے تنگئی دیار تمنا بتا مجھے وہ پانو کیا ہوئے جنہیں صحرا عزیز تھا پوچھو نہ کچھ کہ شہر میں تم ہو نئے نئے اک دن مجھے بھی سیر و تماشا عزیز تھا بے آس انتظار و توقع بغیر شک اب تم سے کیا کہیں ہمیں کیا کیا عزیز ...