Nashtar Khaanqahi

نشتر خانقاہی

ممتاز جدید شاعر

One of prominent modern poets. Disciple of Yas Yagana Changezi

نشتر خانقاہی کی غزل

    رخ پہ بھولی ہوئی پہچان کا ڈر تو آیا

    رخ پہ بھولی ہوئی پہچان کا ڈر تو آیا کم سے کم بھیڑ میں اک شخص نظر تو آیا نہ سہی شہر اماں ذہن کا کوفہ ہی سہی گھور جنگل کی مسافت میں نگر تو آیا کٹ گیا مجھ سے مری ذات کا رشتہ لیکن مجھ کو اس شہر میں جینے کا ہنر تو آیا میرے سینے کی طرف خود مرے ناخن لپکے آخر اس زخم کی ٹہنی پہ ثمر تو ...

    مزید پڑھیے

    چپ تھے برگد خشک موسم کا گلا کرتے نہ تھے

    چپ تھے برگد خشک موسم کا گلا کرتے نہ تھے چل رہی تھیں آندھیاں پتے صدا کرتے نہ تھے ہم رسیدہ تھے کہ دیکھیں دوسروں کو شعلہ پا تھے سفر میں اور سفر کی ابتدا کرتے نہ تھے بند تھا پانی صف آرا تھے غنیم رو سیاہ ہم ادا اس پر بھی رسم کربلا کرتے نہ تھے مطمئن تھے اہل مقتل نیم جاں کر کے مجھے کیسی ...

    مزید پڑھیے

    مسافر خانۂ امکاں میں بستر چھوڑ جاتے تھے

    مسافر خانۂ امکاں میں بستر چھوڑ جاتے تھے وہ ہم تھے جو چراغوں کو منور چھوڑ جاتے تھے سبھی کو اگلے فرسنگوں کی پیمائش مقدر تھی مسافر طے شدہ میلوں کے پتھر چھوڑ جاتے تھے گرجتے گونجتے آتے تھے جو سنسان صحرا میں وہی بادل عجب ویران منظر چھوڑ جاتے تھے نہ تھیں معلوم بھوکی نسل کی مجبوریاں ...

    مزید پڑھیے

    سرمئی دھوپ میں دن سا نہیں ہونے پاتا

    سرمئی دھوپ میں دن سا نہیں ہونے پاتا دھند وہ ہے کہ اجالا نہیں ہونے پاتا دینے لگتا ہے کوئی ذہن کے در پر دستک نیند میں بھی تو میں تنہا نہیں ہونے پاتا گھیر لیتی ہیں مجھے پھر سے اندھیری راتیں میری دنیا میں سویرا نہیں ہونے پاتا چھین لیتے ہیں اسے بھی تو عیادت والے دکھ کا اک پل بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    آخری گاڑی گزرنے کی صدا بھی آ گئی

    آخری گاڑی گزرنے کی صدا بھی آ گئی سو رہو بے خواب آنکھو! رات آدھی آ گئی زندگی سے سیکھ لیں ہم نے بھی دنیا داریاں رفتہ رفتہ تم میں بھی موقع پرستی آ گئی سادہ لوحی دین جو قصبے کی تھی رخصت ہوئی شہر آنا تھا کہ اس میں ہوشیاری آ گئی ہم ملے تھے جانے کیا آفت زدہ روحیں لیے گفتگو اوروں کی تھی ...

    مزید پڑھیے

    کیا خبر ہے نہ ملے پھر کوئی شیشہ ایسا

    کیا خبر ہے نہ ملے پھر کوئی شیشہ ایسا خود کو چھوتے ہوئے ڈرتا ہوں شکستہ ایسا سبزۂ لمس پہ بڑھتا ہوا لمحہ لمحہ سست رو شعلۂ طوفان تمنا ایسا اب نہ دستک میں صدا ہے نہ ہے زنجیر میں شور بند اب تک نہ ہوا تھا در توبہ ایسا سانس کے ساتھ لپکتا ہے تہہ موج خیال کس نے بویا تھا مرے جسم میں شعلہ ...

    مزید پڑھیے

    وصل ارزاں وقت کی لیکن فراوانی گئی

    وصل ارزاں وقت کی لیکن فراوانی گئی بڑھ گئی جتنی سہولت اتنی آسانی گئی معصیت کا ذکر کیا ہے معصیت پہلے بھی تھی رنج تو یہ ہے گناہوں سے پشیمانی گئی عشق بھی دل سے کیا جوگی بنے وحشت بھی کی کیا ہوا کچھ تو کہو کیا وضع حیوانی گئی ایک لمبا فاصلہ ہے جان سے پہچان تک شکل جو جانی گئی وہ بھی نہ ...

    مزید پڑھیے

    نہ مل سکا کہیں ڈھونڈے سے بھی نشان مرا

    نہ مل سکا کہیں ڈھونڈے سے بھی نشان مرا تمام رات بھٹکتا رہا کسان مرا میں گھر بسا کے سمندر کے بیچ سویا تھا اٹھا تو آگ کی لپٹوں میں تھا مکان مرا جنوں نہ کہئے اسے خود اذیتی کہئے بدن تمام ہوا ہے لہو لہان مرا ہوائیں گرد کی صورت اڑا رہی ہیں مجھے نہ اب زمیں ہی مری ہے نہ آسمان مرا دھمک ...

    مزید پڑھیے

    تیز رو پانی کی تیکھی دھار پر بہتے ہوئے

    تیز رو پانی کی تیکھی دھار پر بہتے ہوئے کون جانے کب ملیں اس بار کے بچھڑے ہوئے اپنے جسموں کو بھی شاید کھو چکا ہے آدمی راستوں میں پھر رہے ہیں پیرہن بکھرے ہوئے اب یہ عالم ہے کہ میری زندگی کے رات دن صبح ملتے ہیں مجھے اخبار میں لپٹے ہوئے ان گنت چہروں کا بحر بیکراں ہے اور میں مدتیں ...

    مزید پڑھیے

    ابھی تک جب ہمیں جینا نہ آیا

    ابھی تک جب ہمیں جینا نہ آیا بھروسا کیا کہ کل آیا نہ آیا جلے ہم یوں کہ جیسے چوب نم ہوں چراغوں کی طرح جلنا نہ آیا غلیلیں لا کے بچے پوچھتے ہیں پرندہ کیوں وہ دوبارا نہ آیا میں کیا کہتا کہ سب کے ساتھ میں تھا عیادت کو بھی وہ تنہا نہ آیا احاطہ چہار دیواری اندھیرا کسی جانب بھی دروازہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4