اپنا بیمار ہے دل عشق کا بیمار نہیں
اپنا بیمار ہے دل عشق کا بیمار نہیں
خود تشفی کے سوا ہجر کا آزار نہیں
تیرگی ایسی غضب کی کہ عیاذاً باللہ
ایسا لگتا ہے کہ گھر ہے در و دیوار نہیں
حشر کے بعد بھی ویراں ہی رہے گی جنت
کون حق دار ہے کوئی بھی تو حق دار نہیں
تہ میں کچھ اور ہیں اوپر سے ہیں خبریں کچھ اور
با خبر تم بھی نہیں میں بھی خبردار نہیں
جس کی چوکھٹ پہ بھی رکتا ہوں یہی لگتا ہے
یہ در یار نہیں یہ بھی در یار نہیں
نیکیوں کے لئے ماحول موافق بھی تو ہو
کون کہتا ہے کہ میرا کوئی کردار نہیں