Nashtar Khaanqahi

نشتر خانقاہی

ممتاز جدید شاعر

One of prominent modern poets. Disciple of Yas Yagana Changezi

نشتر خانقاہی کی غزل

    صحرا کا پتا دے نہ سمندر کا پتا دے

    صحرا کا پتا دے نہ سمندر کا پتا دے اچھا ہو کہ اب مجھ کو مرے گھر کا پتا دے ہے کون مرا دشمن جاں مجھ کو خبر ہے کب میں نے کہا مجھ کو ستم گر کا پتا دے یہ رات اماوس کی تو کاٹے نہیں کٹتی اب آ کے مجھے ماہ منور کا پتا دے خطرے میں پڑی جاتی ہے مقتول کی پہچان شاید ہی کوئی شہر میں اب سر کا پتا ...

    مزید پڑھیے

    پیشانیٔ حیات پہ کچھ ایسے بل پڑے

    پیشانیٔ حیات پہ کچھ ایسے بل پڑے ہنسنے کو دل نے چاہا تو آنسو نکل پڑے رہنے دو مت بجھاؤ مرے آنسوؤں کی آگ اس کشمکش میں آپ کا دامن نہ جل پڑے ہنس ہنس کے پی رہا ہوں اسی طرح اشک غم یوں دوسرا پیے تو کلیجہ نکل پڑے نشترؔ وہ اہل عشق بھی ہیں کتنے تنگ نظر ان کی زبان نام مرا سن کے جل پڑے

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4