نسیم نکہت کی غزل

    رات کو شمع کی مانند پگھل کر دیکھو

    رات کو شمع کی مانند پگھل کر دیکھو زندگی کیا ہے کسی طاق میں جل کر دیکھو اپنے چہرے کو بدلنا تو بہت مشکل ہے دل بہل جائے گا آئینہ بدل کر دیکھو رنگ بکھریں گے تو فریاد کرے گی خوشبو تم کسی پھول کو چٹکی سے مسل کر دیکھو

    مزید پڑھیے

    جب اترے چاند آنگن میں تو راتیں بات کرتی ہیں

    جب اترے چاند آنگن میں تو راتیں بات کرتی ہیں وہ چہرہ خوب صورت ہے وہ آنکھیں بات کرتی ہیں سفر کا حوصلہ کافی ہے منزل تک پہنچنے کو مسافر جب اکیلا ہو تو راہیں بات کرتی ہیں شجر جب مضمحل ہوں پھول ہوں شاخوں پہ افسردہ اداس آنگن میں دیواروں سے شامیں بات کرتی ہیں مری آنکھوں سے نیندیں لے ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو چراغ شام کی صورت جلا کے دیکھ

    مجھ کو چراغ شام کی صورت جلا کے دیکھ آئے اندھیری رات مجھے آزما کے دیکھ موجیں کبھی تو ہاریں گی تیرے یقین سے ساحل پہ روز ایک گھروندا بنا کے دیکھ ٹوٹی ہوئی منڈیر پہ چھوٹا سا اک چراغ موسم سے کہہ رہا ہے کہ آندھی چرا کے دیکھ مانا کہ میں ہزار فصیلوں میں قید ہوں لیکن کبھی خلوص سے مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    کہیں دن گزر گیا ہے کہیں رات کٹ گئی ہے

    کہیں دن گزر گیا ہے کہیں رات کٹ گئی ہے یہ نہ پوچھ کیسے تجھ بن یہ حیات کٹ گئی ہے یہ اداس اداس موسم یہ خزاں خزاں فضائیں وہی زندگی تھی جتنی ترے ساتھ کٹ گئی ہے نہ تجھے خبر ہے میری نہ مجھے خبر ہے تیری تری داستاں سے جیسے مری ذات کٹ گئی ہے یہ ترا مزاج توبہ یہ ترا غرور توبہ تری بزم میں ...

    مزید پڑھیے

    شجر کی شاخ سے جھولا اتر بھی سکتا ہے

    شجر کی شاخ سے جھولا اتر بھی سکتا ہے ترے بغیر یہ ساون گزر بھی سکتا ہے سمیٹ رکھا ہے اپنا وجود خود میں نے یہ آئنہ جو گرا تو بکھر بھی سکتا ہے کبھی کبھی ہمیں ملنے کا اذن دے کر وہ ہماری ذات پہ احسان کر بھی سکتا ہے تماشہ یوں نہ دکھا اپنی بے نیازی کا ہمارے صبر کا پیمانہ بھر بھی سکتا ...

    مزید پڑھیے

    اب اپنے درمیاں شیشے کی اک دیوار باقی ہے

    اب اپنے درمیاں شیشے کی اک دیوار باقی ہے مرے دکھ اور ترا نا معتبر کردار باقی ہے ادھر دینار و درہم اور ادھر تیرا پھٹا دامن مرے یوسف تجھی سے گرمئ بازار باقی ہے ہمارے سر قلم ہوتے ہیں ہم بیعت نہیں کرتے کہ ہم لوگوں میں اب بھی جرأت انکار باقی ہے بدلتے وقت نے سب کچھ بدل ڈالا مگر خوش ...

    مزید پڑھیے

    بنجارے ہیں رشتوں کی تجارت نہیں کرتے

    بنجارے ہیں رشتوں کی تجارت نہیں کرتے ہم لوگ دکھاوے کی محبت نہیں کرتے ملنا ہے تو آ جیت لے میدان میں ہم کو ہم اپنے قبیلے سے بغاوت نہیں کرتے طوفان سے لڑنے کا سلیقہ ہے ضروری ہم ڈوبنے والوں کی حمایت نہیں کرتے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2