Naseem Dehlvi

نسیم دہلوی

نسیم دہلوی کی غزل

    فصل گل آئی ہے کل اور ہی ساماں ہوں گے

    فصل گل آئی ہے کل اور ہی ساماں ہوں گے میرے دامن میں ترے دست و گریباں ہوں گے سب یہ کافر ہیں حسینوں کی نہ سن تو اے دل چار دن بعد یہی دشمن ایماں ہوں گے کس طرح جائیں گے مانع ہے ہمیں خوف مزاج زلف پر خم ہے تو کچھ وہ بھی پریشاں ہوں گے گریہ انجام تبسم ہے نہ ہنس اے غافل خون روئیں گے وہی زخم ...

    مزید پڑھیے

    سن لے یہ التماس مرا دوستانہ ہے

    سن لے یہ التماس مرا دوستانہ ہے ہشیار ہو کہ تیر اجل کا نشانہ ہے کب تک رہے گی مسند کمخواب زیر پا کاہے خمیدہ یار ترا شامیانہ ہے دنیا کے مخمصے ہیں یہ فرزند و اقربا بیگانہ سب سے ہو کہ اجل کا یگانہ ہے اے عندلیب جان چمن جسم پر نہ پھول ویرانہ ایک روز ترا آشیانہ ہے انفاس مستعار پہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    اب آئے ہو صدا سن کر گجر کی

    اب آئے ہو صدا سن کر گجر کی کہو جی شب کہاں تم نے بسر کی سحر کو دفن کر کے جائیے گا مصیبت اور ہے اک رات بھر کی قفس میں بند کرنا تھا جو تقدیر ندامت کیوں مجھے دی بال و پر کی گزر جائے گی جو گزرے گی ہم پر چلو جی راہ لو تم اپنے گھر کی ابھی تو جان لے لے اے غم عشق مصیبت کون اٹھائے عمر بھر ...

    مزید پڑھیے

    منظور ہے ناپنا کمر کا

    منظور ہے ناپنا کمر کا پیمانہ بنائیے نظر کا تھا شام سے دغدغہ سحر کا دھڑکا ہی لگا رہا گجر کا سینے میں سے کچھ آئی آواز پھوٹا کوئی آبلہ جگر کا آنسو پونچھیں گے کب تک احباب ٹپکا نہ رکے گا چشم تر کا دل ہی تو ہے کیا عجب بہل جائے کچھ ذکر کرو ادھر ادھر کا کیوں زلف دراز کھولتے ہو کیا خوف ...

    مزید پڑھیے

    کھلی ہے آنکھ جوش انتظار یار جانی ہے

    کھلی ہے آنکھ جوش انتظار یار جانی ہے بہ مشکل دیدۂ زنجیر خواب پاسبانی ہے لبوں پر آ چکا دم کوئی دم کی زندگانی ہے چل اٹھ او بے وفا پہلو سے اب کیوں مہربانی ہے لگا دوں آگ اف کرنے میں وہ شعلہ زبانی ہے بہ شکل شمع سارے جسم میں سوز نہانی ہے کلام حضرت واعظ نصیب دشمناں باشد انڈیلو مے پیو ...

    مزید پڑھیے

    سفر ہے دشوار خواب کب تک بہت پڑی منزل عدم ہے

    سفر ہے دشوار خواب کب تک بہت پڑی منزل عدم ہے نسیمؔ جاگو کمر کو باندھو اٹھاؤ بستر کہ رات کم ہے نسیمؔ غفلت کی چل رہی ہے امنڈ رہی ہیں قضا کی نیندیں کچھ ایسا سوئے ہیں سونے والے کہ جاگنا حشر تک قسم ہے جوانی و حسن و جاہ و دولت یہ چند انفاس کے ہیں جھگڑے اجل ہے استادہ دست بستہ نوید رخصت ہر ...

    مزید پڑھیے

    لو ضعف سے اب یہ حال تن ہے

    لو ضعف سے اب یہ حال تن ہے سایہ متجسس بدن ہے یہاں تن ہی نہیں ہے لاغری سے ہم کو کیا حاجت کفن ہے مثل نکہت ہیں جامہ کیسا اپنا تو بدن ہی پیرہن ہے ہوں بلبل بوستان تصویر بے خوف خزاں مرا چمن ہے ہوں کشتہ تیغ شرم جاناں ہر زخم کا بے زباں دھن ہے لا ریب نسیمؔ دہلوی تو استاد نزاکت سخن ہے

    مزید پڑھیے

    مرگ اغیار لب پہ لا نہ سکا

    مرگ اغیار لب پہ لا نہ سکا وہ قسم ہوں جو یار کھا نہ سکا اس قدر ضعف تھا کہ تیرا ناز تھی تمنا مگر اٹھا نہ سکا مر کے ٹھنڈا کہیں نہ ہو جائے اس لیے وہ مجھے جلا نہ سکا بخل دیکھو تو میری تربت پر ایک آنسو بھی وہ گرا نہ سکا اٹھ نہ جائے رقیب محفل سے مجھ کو پہلو میں وہ بٹھا نہ سکا تھا جو اشک ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگایئے گا

    ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگایئے گا سمجھے یہ رنگ ہم بھی کچھ رنگ لائیے گا یہ شوخیاں تمہاری لکھی ہوئی ہیں دل پر آخر کبھی تو میرے قابو میں آئیے گا پھر میں بھی کچھ کہوں گا دیکھو زبان روکو پھر منہ چھپا کے مجھ سے آنسو بہائیے گا ذات شریف ہو تم میں خوب جانتا ہوں طوفان اور کوئی مجھ پر ...

    مزید پڑھیے

    کیے سجدے ہوئے کافر نہ کچھ دل میں ذرا سمجھے

    کیے سجدے ہوئے کافر نہ کچھ دل میں ذرا سمجھے ہمیں بندہ بنایا اے بتو تم سے خدا سمجھے کلام نا سزا بھی جو ہوا سرزد سزا سمجھے وہ گوتم نے کہا بے جا مگر ہم سب بجا سمجھے نہ دشمن دوست ہوں میں اور نہ بیگانہ یگانہ ہوں جو وہ سمجھے تو کیا سمجھے تو یہ سمجھے تو کیا سمجھے کہا میں نے اٹھا دو ہاتھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5