Naseem Dehlvi

نسیم دہلوی

نسیم دہلوی کی غزل

    ہے کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے

    ہے کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے دل تو حاضر ہے مگر پژمردہ ہے تو ہی آتا ہے نہ آتی ہے قضا دیکھتے ہیں جس کو وہ آزردہ ہے جس طرح جی چاہے رکھیں میرا دل جانتے ہیں وہ کہ مال مردہ ہے منزل الفت میں رکھیں تو قدم رستم و سہراب کا کیا گردہ ہے کون سنتا ہے تمہاری اے نسیمؔ کس کو پاس خاطر افسردہ ہے

    مزید پڑھیے

    بہ لب چوسے ہوئے کیوں کر نہیں ہیں

    بہ لب چوسے ہوئے کیوں کر نہیں ہیں کہ ہیں گلبرگ لیکن تر نہیں ہیں نصیب دشمناں ہاں کچھ تو گزرے کہ رخسارے ترے انور نہیں ہیں مبارک باد آزادی ہمیں کیا یہاں مدت سے بال و پر نہیں ہیں نہ پوچھو شمع سے تکلیف ہستی کہ شب بھر میں ہزاروں سر نہیں ہیں

    مزید پڑھیے

    کسی صورت تو دل کو شاد کرنا

    کسی صورت تو دل کو شاد کرنا ہمیں دشمن سمجھ کر یاد کرنا دعائیں دیں گے چھٹ کر قیدیٔ زلف جہاں تک ہو سکے آزاد کرنا کہیں وہ آفریں ایسا پڑے ہاتھ نہ مجھ پر رحم او جلاد کرنا مسیحائی دکھانا بعد مردن جو دل چاہے تو کچھ ارشاد کرنا اڑا دو خاک میری ٹھوکروں سے اگر منظور ہے برباد کرنا ادب ...

    مزید پڑھیے

    شکایت سے غرض کیا مدعا کیا

    شکایت سے غرض کیا مدعا کیا نہیں تو دوست دشمن کا گلا کیا نہ آیا نامہ بر گھبرا رہا ہوں نہیں معلوم کیا گزری ہوا کیا بہت اچھی نہایت خوب گزری اجی آفت زدوں کا پوچھنا کیا نہ دو مجھ کو مبارک باد بے سود بری تقدیر والوں کا بھلا کیا یہ کیوں چتون پھری کیوں آنکھ بدلی بھلا میں نے قصور ایسا ...

    مزید پڑھیے

    اشک آنکھوں میں ڈر سے لا نہ سکے

    اشک آنکھوں میں ڈر سے لا نہ سکے دل کی بھڑکی ہوئی بجھا نہ سکے نہ ہلی جب زباں نزاکت سے رہ گئے دیکھ کر بلا نہ سکے تھیں جو اس میں حیا کی کچھ باتیں شکوہ میرا وہ لب پہ لا نہ سکے کیا ہوئے تیرے حوصلے اے اشک حرف تقدیر کو مٹا نہ سکے تھا یہ خطرہ کہیں پسند نہ ہوں گالیاں بھی مجھے سنا نہ ...

    مزید پڑھیے

    برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے

    برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے مانگیں کچھ اور بھی خدا سے اچھا اچھا عدو سے ملیے جاؤ جاؤ جی بلا سے کیا حال کہیں دل و جگر کا ٹکڑے ٹکڑے ہے جا بہ جا سے ٹوٹے کانٹے تو زخم روئے آنسو ٹپکے خراش پا سے راحت طلبی سمجھ کے اے دل ایسے بے درد بے وفا سے مطلوب وہی کہ جس کی فریاد نکلے گا کام کیا دعا ...

    مزید پڑھیے

    وصل کی رات ہے آخر کبھی عریاں ہوں گے

    وصل کی رات ہے آخر کبھی عریاں ہوں گے میں پشیماں ہوں تو کیا وہ نہ پشیماں ہوں گے آپ مر جاؤں گا تو آ کہ نہ آ او ظالم آج وہ دن ہے کہ مجھ پر مرے احساں ہوں گے غیر کی شکل بنیں گے کبھی خود ان کا شوق ہم بھی دیکھیں تو کہاں تک نہ وہ پرساں ہوں گے دل جو روٹھا تو منانے سے کہیں منتا ہے یہ ستم ...

    مزید پڑھیے

    ملنے کے نہیں نشاں ہمارے

    ملنے کے نہیں نشاں ہمارے کیا پوچھتے ہو مکاں ہمارے احساں سے نہیں بدی بھی خالی دشمن ہیں مہرباں ہمارے پچھتاؤ گے جان لے کے دیکھو ناحق ہیں یہ امتحاں ہمارے بے مثل ہیں لذت سخن میں سب اٹھ گئے ہم زباں ہمارے آزاد کی جستجو عبث ہے پاؤ گے پتے کہاں ہمارے اڑتی ہے خاک اس زمیں سے پڑتے ہیں قدم ...

    مزید پڑھیے

    دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا

    دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا خوب کیا آپ نے اچھا کیا آج حیا آنکھ کی کچھ اور ہے چاہنے والا کوئی پیدا کیا ہائے رے پیماں شکنی کے مزے جب میں گیا وعدۂ فردا کیا کچھ تو کسی نے انہیں سمجھا دیا ہم جو گئے آج تو پردہ کیا گو کہ نہ تھا میری طرف منہ مگر ترچھی نگاہوں سے وہ دیکھا کیا آہ کی تقصیر ...

    مزید پڑھیے

    قربان ہو رہی ہے مری جاں ادھر ادھر

    قربان ہو رہی ہے مری جاں ادھر ادھر واں رہ پہ ہے جو زلف پریشاں ادھر ادھر جاتے ہیں جب وہ سوئے چمن سیر کے لیے ہوتے ہیں ساتھ عاشق نالاں ادھر ادھر ہیں لخت دل کہیں تو کہیں پارۂ جگر رہتے ہیں پیش چشم گلستاں ادھر ادھر ہنگامۂ‌ جنوں سے جو دونوں ہوئے ہیں چاک دامن ادھر ادھر ہے گریباں ادھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5