Naseem Dehlvi

نسیم دہلوی

نسیم دہلوی کی غزل

    گلی میں بخت کے ان کا بھی کچھ قصہ نکل آیا

    گلی میں بخت کے ان کا بھی کچھ قصہ نکل آیا ہوئی تھی صلح کس مشکل سے پھر جھگڑا نکل آیا میں اپنے شور کے صدقے کہ دیکھا آج تو اس کو بھرا غصے میں گھر سے شوخ بے پروا نکل آیا ندامت جو ہوئی دیں گالیاں افسانہ گویوں کو وہ سنتے تھے کہانی ذکر کچھ میرا نکل آیا کسی کا گھر نہیں یہ تو گلی ہے سوچ او ...

    مزید پڑھیے

    اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی

    اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی حال سے لوگوں کو خبر ہو گئی وصل کی شب کیا کہوں کیوں کر کٹی بات نہ کی تھی کہ سحر ہو گئی دیکھیں گے اے ضبط یہ دعوے ترے رات جدائی کی اگر ہو گئی حضرت ناصح نے کہی بات جو ہم اثر درد جگر ہو گئی میں نہ ہوا غیر ہوئے مستفیض تیری نظر تھی وہ جدھر ہو گئی یاد کسی کی ...

    مزید پڑھیے

    ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا

    ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا آخر کو پاس آ ہی گیا نور دیدہ کا نام فراق پھر نہ لیا میں نے عمر بھر تھا ذائقہ زباں پہ عذاب چشیدہ کا اب وہ مزا نہیں لب شیریں کے قند میں چوسا ہوا ہے یہ کسی خدمت رسیدہ کا اے چرخ پیر زور جوانی سے در گزر اب پاس چاہیے تجھے پشت خمیدہ کا ابرو میں خم جبیں ...

    مزید پڑھیے

    مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے

    مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے ادھر آئیے ادھر آئیے ادھر آئیے ادھر آئیے کھڑے کب سے ہم سر راہ ہیں کہیں مر چکیں کہ تباہ ہیں ہدف خدنگ نگاہ ہیں ذرا آنکھ ادھر بھی ملائیے بھلا آنا آپ کا کام ہے یہ غلط تمام کلام ہے اجی بس ہمارا سلام ہے کہیں اور باتیں بنائیے تہ تیغ تیز ہے اک ...

    مزید پڑھیے

    بھولوں تمہیں وہ بشر نہیں ہوں

    بھولوں تمہیں وہ بشر نہیں ہوں اتنا بھی بے خبر نہیں ہوں اللہ رے فرط کاہش تن ہر چند کہ ہوں مگر نہیں ہوں دکھلائی نہ دوں یہ غیر ممکن کچھ آپ کی میں کمر نہیں ہوں بے حال کہے نہ جانے دوں گا عاشق ہوں نامہ بر نہیں ہوں

    مزید پڑھیے

    رشک عدو میں دیکھو جاں تک گنوا ہی دیں گے

    رشک عدو میں دیکھو جاں تک گنوا ہی دیں گے لو جھوٹ جانتے ہو اک دن دکھا ہی دیں گے آواز کی طرح سے بیٹھیں گے آج اے جاں دیکھیں تو آپ کیوں کر ہم کو اٹھا ہی دیں گے اڑ جاؤں گا جہاں سے عاشق کا رنگ ہو کر نقش قدم نہیں ہوں جس کو مٹا ہی دیں گے غیروں کی جستجو کی مدت سے آرزو ہے یہ یاد وہ نہیں ہے جس ...

    مزید پڑھیے

    شکایت کے عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے

    شکایت کے عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے مزا دینے لگے کچھ سہتے سہتے اب ستم تیرے نہ پوچھ اب مجھ سے تو میری امیدوں کی یہ صورت ہے کہ ہیں بھی اور نہیں بھی جس طرح پر لطف کم تیرے جدھر تو نے کیا رخ زیر پا میرا تصور تھا نہ باور ہو تو دیکھ آنکھوں میں ہیں نقش قدم تیرے لب جاں بخش جاناں کب اجازت ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ او قاتل بسر کرتے ہیں کس مشکل سے ہم

    دیکھ او قاتل بسر کرتے ہیں کس مشکل سے ہم چارہ گر سے درد نالاں درد سے دل دل سے ہم ہائے کیا بے خود کیا ہے غفلت امید نے حال دل کہتے ہیں اپنا پھر اسی قاتل سے ہم رشک اعدا نے کیے روشن بدن میں استخواں شمع محفل ہو کے اٹھے آپ کی محفل سے ہم اس کو کہتے ہیں وفاداری کہ بعد از قتل بھی داغ‌ خوں ...

    مزید پڑھیے

    گشت نہ کر ادھر ادھر بے خبری جہاں میں ہے

    گشت نہ کر ادھر ادھر بے خبری جہاں میں ہے اپنے ہی دل میں غور کر دیکھ مکیں مکاں میں ہے رات تمام کھو چکا نیند سے سیر ہو چکا جاگ کہ خوب سو چکا کوس اجل فغاں میں ہے کس سے مثال تجھ کو دوں غیر کہاں جو نام لوں حال کہوں تو کیا کہوں قفل ادب زباں میں ہے پاؤں بہت تھکا چکا شام کا قرب آ چکا دوڑ کہ ...

    مزید پڑھیے

    دل کے آتے ہی یہ نقشہ ہو گیا

    دل کے آتے ہی یہ نقشہ ہو گیا کیا بتاؤں دوستو کیا ہو گیا تم نے فرصت پائی گھر بیٹھے طبیب مر گیا بیمار اچھا ہو گیا کر چکا تھا کام افسون رقیب آج ہم سے ان سے پرچھا ہو گیا ان پہ دل آیا بڑی مشکل پڑی مدعی پہلو میں پیدا ہو گیا ہائے بیتابی نے میری کیا کیا حال سب ان پر ہویدا ہو گیا ایک ظالم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5