Naseem Ansari

نسیم انصاری

نسیم انصاری کے تمام مواد

2 غزل (Ghazal)

    میرے کہنے سے تو دل ان پر مرا آیا نہ تھا

    میرے کہنے سے تو دل ان پر مرا آیا نہ تھا آئینے کو میں نے خود پتھر سے ٹکرایا نہ تھا جو ہوا جو کچھ ہوا میری خطا میرا قصور توڑ کر عہد وفا کیا وہ بھی پچھتایا نہ تھا میں نے دیکھی ہے امیر شہر کی وہ مفلسی دولت دنیا تھی لیکن غم کا سرمایہ نہ تھا ہم نے سوچا اب فراز دار سے دیکھیں اسے زندگانی ...

    مزید پڑھیے

    مرے لبوں پہ آتے آتے کوئی بات تھک گئی

    مرے لبوں پہ آتے آتے کوئی بات تھک گئی یہ کیا ہوا کہ چلتے چلتے کائنات تھک گئی میں روشنی پہ زندگی کا نام لکھ کے آ گیا اسے مٹا مٹا کے یہ سیاہ رات تھک گئی میں زندگی کے فاصلوں کو ناپنے نکل پڑا قریب منزل سفر مری حیات تھک گئی بڑا کٹھن ہے دوستو خود اپنی ذات کا سفر کبھی کبھی تو یوں ہوا کہ ...

    مزید پڑھیے

11 نظم (Nazm)

    خود کشی

    زمیں اب چلتے چلتے تھک چکی ہے سمندر خشک ہوتا جا رہا ہے فلک بھی کتنا بوڑھا ہو چکا ہے ستارے روشنی کھونے لگے ہیں یہ سیارے جو گردش کر رہے ہیں یہ سیارے زمیں پر آ گریں گے بکھر جائے گا یہ شیرازہ اک دن سبھی ذی روح سارے جانور انساں یہ اک اک سانس مانگیں گے زمیں پر بگڑ جائے گا جس دن بھی ...

    مزید پڑھیے

    کلمۂ طیبہ کا پہلا لفظ لا

    لا کی منزل منزل دشوار ہے پر خار ہے کفر سے دامن چھڑانا بھی بڑا آزار ہے تجھ سے ممکن ہو تو پہلے لا کی منزل سے گزر پہلے غیر اللہ سے دامن چھڑا او بے خبر اس کی وحدت اس کی یکتائی کا کلمہ بعد میں پہلے مصنوعی خداؤں سے مگر انکار کر کفر کو ٹھوکر لگاتا ہے جو لا کہتا ہے تو لا تو کہتا ہے زباں سے ...

    مزید پڑھیے

    انقلاب

    تمام عمر میں لمحوں کو قتل کرتا رہا بس اک لمحہ بہت دن سے منتظر تھا مرا وہ ایک لمحہ بہت دن سے اضطراب میں تھا وہ ایک لمحہ مسلسل کسی عذاب میں تھا وہ ایک لمحہ جو باقی مرے حساب میں تھا گذشتہ لمحوں کا سارا حساب اس نے لیا اس ایک لمحے نے پھر مجھ کو قتل کر ہی دیا ہر ایک ظلم کا ہے اک جواب کہتے ...

    مزید پڑھیے

    لڑکیاں

    لڑکیاں گھر میں پرندوں کی طرح ہوتی ہیں ایک دن شاخ سے اڑ جاتی ہیں اور ماں باپ کو تڑپاتی ہیں لڑکیاں کھلتے گلابوں کی طرح ہوتی ہیں آنگنوں اور در و دیوار کو مہکاتی ہیں سیج پر اجنبی دم ساز کی بچھ جاتی ہیں لڑکیاں قصوں کی پریوں کی طرح ہوتی ہیں خواب بن کر کبھی آنکھوں میں سما جاتی ...

    مزید پڑھیے

    کہانی

    اک دن اس نے میرے دل کے دروازے پر دستک دی تھی اور مرے خوابوں کی دنیا میں ارمانوں کا جشن ہوا تھا کلیاں مہکیں پھول کھلے تھے ہر سو خوشبو پھیل گئی تھی اس کو دیکھا دیکھ کے سوچا اس جیسا اس دنیا میں شاید کوئی اور نہ ہوگا ایسا پیکر ایسا چہرہ کب دیکھا تھا میں نے مرمر کی اک مورت کو چلتے ...

    مزید پڑھیے

تمام