لڑکیاں

لڑکیاں گھر میں پرندوں کی طرح ہوتی ہیں
ایک دن شاخ سے اڑ جاتی ہیں
اور ماں باپ کو تڑپاتی ہیں


لڑکیاں کھلتے گلابوں کی طرح ہوتی ہیں
آنگنوں اور در و دیوار کو مہکاتی ہیں
سیج پر اجنبی دم ساز کی بچھ جاتی ہیں


لڑکیاں قصوں کی پریوں کی طرح ہوتی ہیں
خواب بن کر کبھی آنکھوں میں سما جاتی ہیں
آنکھوں سے دل میں اتر جاتی ہیں


لڑکیاں شیشہ و ساغر کی طرح ہوتی ہیں
خود بہکتی نہیں بہکاتی ہیں
ٹھیس لگتے ہی چھلک جاتی ہیں


لڑکیاں موم کی مورت کی طرح ہوتی ہیں
لمس کی آنچ سے بانہوں میں پگھل جاتی ہیں
اور کبھی زندہ بھی جل جاتی ہیں


لڑکیاں مہندی کے پتوں کی طرح ہوتی ہیں
پستی جاتی ہیں مگر رنگ ہی چھلکاتی ہیں
کبھی بازار میں بک جاتی ہیں


لڑکیاں بند کتابوں کی طرح ہوتی ہیں
ان کو پڑھیے تو صحیفوں کا گماں ہوتا ہے
پھر مگر نیند کہاں چین کہاں ہوتا ہے