Najma Mansoor

نجمہ منصور

  • 1967

نجمہ منصور کی نظم

    آتش بازی کے کھیل کھیلنے والو

    آتش بازی کے کھیل کھیلنے والو تم کیا جانو پرندہ بھی خواب دیکھتا ہے محبت کے پیار کے اور امن کے خواب جانتے ہو جب اس کے خوابوں میں بارود کی بو بس جائے تو خوابوں کی دیواریں بھربھری ہو کر بکھرنے لگتی ہیں پرندہ روٹھ جاتا ہے سب سے اپنے آپ سے بھی پرندہ سہما سہما گم صم سا پھرتا ہے بے خواب ...

    مزید پڑھیے

    محبت کو کبھی یاد نہ بننے دینا

    کبھی محبت کو یاد نہ بننے دینا تمہیں معلوم نہیں ہے محبت یاد بن جائے تو لمبے گھنے درختوں کی شاخوں کی مانند بدن کے گرد یوں لپٹ جاتی ہیں کہ سانسیں رک رک کر آتی ہیں ایک لمحہ کو یوں لگتا ہے جیسے زندگی اور موت کے بیچ خانہ جنگی میں زندگی ہار جائے گی مگر محبت کی سسکیاں کچھ دیر سہم کر چپ ...

    مزید پڑھیے

    گیلی سیلی

    میں نے اپنے مطالعے کی ٹیبل سے اپنی ساری نظمیں اٹھا کر کپڑوں کی الماری میں رکھ دیں تاکہ نہ میں نظموں کو دیکھوں نہ وہ مجھے آنکھیں دکھائیں مگر جب بھی میں الماری کا پٹ کھولتی درزوں سے جھانکتی نظمیں روتی چیختی اور میں جلدی سے الماری بند کر دیتی آج بہت دنوں بعد میں نے جب الماری کھولی ...

    مزید پڑھیے

    آخری دروازہ بند ہونے سے پہلے پہلے

    واپسی کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو گم صم کیوں بیٹھی ہو تمہیں تو خوش ہونا چاہیے واپسی کا ایک در ابھی کھلا ہے تم جانتی نہیں ہو اگر واپسی کے سبھی دروازے بند ہو جائیں تو رات پیروں میں گھنگھرو باندھے اتنا بھٹکاتی ہے کہ واپس لوٹ آنے پر بھی گھر نہیں ملتا صرف سرمئی سناٹے آنکھوں سے نکلتے ...

    مزید پڑھیے

    چوگا چنتی چڑیا کے دکھ

    چوگا چنتی چڑیا تیری پلکوں پر اگنے والے خوابوں کے انکھوئے کون چن سکتا ہے تو تو یہ بھی نہیں جانتی جانے کب کوئی میلی نظروں کا جال تجھ پر پھینکے اور تو بے نور آنکھوں کے پنجرے میں قید ہو کر تمام عمر کے لیے چہکنا بھول جائے چڑیا تو تو پگلی ہے چوگا چنتی خواب دیکھتی ہے تجھے کیا معلوم ...

    مزید پڑھیے

    ایک نئی بوطیقا

    سنو تمہارے پھپھوند لگے جذبے اب کسی کو متأثر نہیں کر سکتے کیونکہ حروف تہجی سے لفظوں کی ایک نئی بوطیقا لکھی جا رہی ہے جس میں میم سے محبت د سے درد اور ج سے جدائی نہیں شاید ان لفظوں کو زنجیروں سے باندھ کر کسی اندھے کنویں میں پھینک دیا گیا ہے لفظ بھی اب تو سازشیں کرنے لگے ہیں محبت کو ...

    مزید پڑھیے

    نظم مجھے لکھتی ہے

    میں نظم کو نہیں لکھتی نظم مجھے لکھتی ہے نظم میرے ہونٹوں سے ہنستی میری آنکھوں سے روتی ہے میں مصروف ہوتی ہوں تو نظم میرے بستر پر آرام کرتی ہے نظم کی خوابوں بھری نیلی آنکھیں میرا تعاقب کرتی ہیں تو میرا خالی پن لفظوں سے بھر جاتا ہے اور جب سرمئی شام رات کی اندھیری کوکھ میں زینہ زینہ ...

    مزید پڑھیے

    خدا کون سے آسماں پر رہتا ہے

    اکثر اخبار میں صبح سویرے لفظوں کے اندر چھم چھم ناچتی خون کی بوندیں دیکھ کر میں سوچ میں پڑ جاتی خدا کون سے آسمان پر رہتا ہے خود سے پوچھتی سب سے پوچھتی جواب میں ایک گھنی چپ میرا منہ چڑھاتی مگر آج اتنے سارے پھولوں کے جنازے دیکھے تو میں نے قطرہ قطرہ ٹپکتے خون کی حقیقت تازہ گلاب کی ...

    مزید پڑھیے

    پرندہ لوٹ کر نہیں آتا

    پرندہ صبح سے شام تک بھٹکتا ہے شام ڈھلتی ہے تو اپنی پناہ گاہ میں لوٹ آتا ہے مگر اپنے پنجوں میں اٹکے خواب جنگلوں بیابانوں وادیوں اور میدانوں کو سونپ آتا ہے خواب رات بھر ادھر ادھر بھٹکتے ہیں مگر آنکھوں کی کھڑکیاں ان پر نہیں کھلتی خواب پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں پرندے کو بلاتے ہیں مگر ...

    مزید پڑھیے