خدا کون سے آسماں پر رہتا ہے

اکثر اخبار میں
صبح سویرے لفظوں کے اندر
چھم چھم ناچتی خون کی بوندیں دیکھ کر
میں سوچ میں پڑ جاتی
خدا کون سے آسمان پر رہتا ہے
خود سے پوچھتی
سب سے پوچھتی
جواب میں ایک گھنی چپ
میرا منہ چڑھاتی
مگر آج اتنے سارے پھولوں کے جنازے دیکھے تو
میں نے
قطرہ قطرہ ٹپکتے خون کی حقیقت
تازہ گلاب کی حسرت
چڑیا کی اداسی اور
کوئل کی ہوک میں چھپی درد بنتی داستاں کو
جان لیا
بس اس دن سے
میں کسی سے نہیں پوچھتی کہ
خدا کون سے آسماں پر رہتا ہے