پرندہ لوٹ کر نہیں آتا

پرندہ
صبح سے شام تک
بھٹکتا ہے
شام ڈھلتی ہے تو
اپنی پناہ گاہ میں لوٹ آتا ہے
مگر اپنے پنجوں میں اٹکے خواب
جنگلوں بیابانوں
وادیوں اور میدانوں کو سونپ آتا ہے
خواب رات بھر ادھر ادھر بھٹکتے ہیں
مگر آنکھوں کی کھڑکیاں ان پر نہیں کھلتی
خواب پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں
پرندے کو بلاتے ہیں
مگر پرندہ لوٹ کر نہیں آتا
مگر پرندہ لوٹ کر نہیں آتا