نظم مجھے لکھتی ہے

میں نظم کو نہیں لکھتی
نظم مجھے لکھتی ہے
نظم میرے ہونٹوں سے ہنستی
میری آنکھوں سے روتی ہے
میں مصروف ہوتی ہوں تو
نظم میرے بستر پر آرام کرتی ہے
نظم کی خوابوں بھری نیلی آنکھیں
میرا تعاقب کرتی ہیں تو
میرا خالی پن لفظوں سے بھر جاتا ہے
اور جب سرمئی شام
رات کی اندھیری کوکھ میں
زینہ زینہ اترتی ہے تو
نظم یادوں کی پوٹلی کھول کر بیٹھ جاتی ہے
یادیں صفحۂ قرطاس پر پھیل جاتی ہیں
اور پھر پرت در پرت
نظم مجھے لکھتی ہے
مان لو
میں نظم کو نہیں لکھتی