Najeeb Ahmad

نجیب احمد

نجیب احمد کی غزل

    اے مہ ہجر کیا کہیں کسی تھکن سفر میں تھی

    اے مہ ہجر کیا کہیں کیسی تھکن سفر میں تھی روپ جو رہ گزر میں تھے دھوپ جو رہ گزر میں تھی لفظ کی شکل پر نہ جا لفظ کے رنگ بھی سمجھ ایک خبر پس خبر آج کی ہر خبر میں تھی رات فصیل شہر میں ایک شگاف کیا ملا خون کی اک لکیر سی صبح نظر نظر میں تھی میری نگاہ میں بھی خواب تیری نگاہ میں خواب ایک ہی ...

    مزید پڑھیے

    اک رنج عمر دے کے چلا ہے کدھر مجھے

    اک رنج عمر دے کے چلا ہے کدھر مجھے گلیوں میں رول دیں نہ مرے بال و پر مجھے دل پربتوں کے پار نہ چل دے ہوا کے ساتھ بادل بنا نہ دے مری خوئے سفر مجھے میں نے جنہیں چھوا انہیں شہکار کر دیا اے کاش چھو سکے مرا دست ہنر مجھے تم سے بچھڑ کے عمر بھر اک سوچ ہی رہی کیا ہو تم ایک روز بھلا دو اگر ...

    مزید پڑھیے

    عشق آباد فقیروں کی ادا رکھتے ہیں

    عشق آباد فقیروں کی ادا رکھتے ہیں اور کیا اس کے سوا اہل انا رکھتے ہیں ہم تہی دست کچھ ایسے بھی تہی دست نہیں کچھ نہیں رکھتے مگر پاس وفا رکھتے ہیں زندگی بھر کی کمائی یہ تعلق ہی تو ہے کچھ بچے یا نہ بچے اس کو بچا رکھتے ہیں شعر میں پھوٹتے ہیں اپنی زباں کے چھالے نطق رکھتے ہیں مگر سب سے ...

    مزید پڑھیے

    اندھے بدن میں یہ سحر آثار کون ہے

    اندھے بدن میں یہ سحر آثار کون ہے تو بھی نہیں تو مجھ میں شرربار کون ہے وہ کون ہے جو جاگتا ہے میری نیند میں اسرار میں ہوں صاحب اسرار کون ہے کس نے وفا کے نام پہ دھوکا دیا مجھے کس سے کہوں کہ میرا گنہ گار کون ہے سب نے گلے لگا کے گلے سے جدا کیا پہچان ہی نہیں کہ ریاکار کون ہے پھر یوں ...

    مزید پڑھیے

    تھکن سے چور بدن دھول میں اٹا سر تھا

    تھکن سے چور بدن دھول میں اٹا سر تھا میں جب گرا تو مرے سامنے مرا گھر تھا تہی ثمر شجر خواب کچھ نڈھال سے تھے زمیں پہ سوکھی ہوئی پتیوں کا بستر تھا اسی کی آب تھی اس شب میں روشنی کی لکیر وہ ایک شخص کہ جو کانچ سے بھی کم تر تھا نہیں کہ گرد ہیں سات آسماں ہی گردش میں زمیں کی طرح مرے پاؤں ...

    مزید پڑھیے

    ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا

    ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا پار اترتا تھا مگر تجھ پہ بھروسہ بھی نہ تھا زندگی ہاتھ نہ دے پائی مرے ہاتھوں میں ساتھ جانا بھی نہ تھا ہاتھ چھڑانا بھی نہ تھا جن پہ اک عمر چلا تھا انہی رستوں پہ کہیں واپس آیا تو مرا نقش کف پا بھی نہ تھا غرق دنیا کے لیے دست دعا کیا ...

    مزید پڑھیے

    بدن سے جاں نکلنا چاہتی ہے

    بدن سے جاں نکلنا چاہتی ہے بلا اس گھر سے ٹلنا چاہتی ہے یوں ہی آتش فشاں کب جاگتے ہیں زمیں کروٹ بدلنا چاہتی ہے حدود صحن گلشن سے نکل کر صبا گلیوں میں چلنا چاہتی ہے دھواں سا اٹھ رہا ہے چار جانب کوئی صورت نکلنا چاہتی ہے ہواؤں میں نہیں قوت نمو کی مگر ٹہنی تو پھلنا چاہتی ہے جو چہرہ ...

    مزید پڑھیے

    وہی رٹے ہوئے جملے اگل رہا ہوں ابھی

    وہی رٹے ہوئے جملے اگل رہا ہوں ابھی گرفت حرف سے باہر نکل رہا ہوں ابھی وہ ایک تو کہ ہوا کی طرح گزر بھی چکا وہ ایک میں کہ فقط ہاتھ مل رہا ہوں ابھی مری نمود کسی جسم کی تلاش میں ہے میں روشنی ہوں اندھیروں میں چل رہا ہوں ابھی کشادہ برگ رہیں ہجر کے گھنے سائے ترے وصال کے صحرا میں جل رہا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اس کے سوا خواہش سادہ نہیں رکھتے

    کچھ اس کے سوا خواہش سادہ نہیں رکھتے ہم تجھ سے بچھڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے کب دل کی طرف لوٹ کے آئیں گے سفینے صحرا کے بگولے غم جادہ نہیں رکھتے کیا خاک سمٹ پائیں گے دنیا کے بکھیڑے ہم لوگ تو دامن بھی کشادہ نہیں رکھتے اڑ جائیں گے ہم بھی ورق خاک سے اک دن رنگوں کے سوا کوئی لبادہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے

    شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے ہم لوگ روشنی کے طلب گار کب ہوئے خوشبو کی گھات میں ہیں شکاری ہواؤں کے جھونکے مگر کسی سے گرفتار کب ہوئے تعبیر کی رتوں نے بدن زرد کر دئے پھر بھی یہ لوگ خواب سے بیدار کب ہوئے تالے لگا لئے ہیں خود اپنی زبان پر کیا بات ہے تم اتنے سمجھ دار کب ہوئے یہ عہد ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4