Naghmana Kanwal

نغمانہ کنول

نغمانہ کنول کی نظم

    مسافر کے ٹھکانے نہیں ہوتے

    اے مرے ماضی کی بچھڑی ہوئی راہو خیال یار سے بڑھ کر حسین شاہ راہو صدا نہ دو مجھ کو کہ سر زمین وطن پر کسی بھی آنگن کے کسی دراز بدن در کے خوب رو سے ماتھے پر میرے خیال میں دل کش حسین نام کی تحریر کاتب وقت نے نہیں لکھی کہ میں ہوائے دہر ہوں بھٹکنا نگر نگر اجنبی دیاروں میں میرا مقدر ...

    مزید پڑھیے

    نا ممکن

    اے مرے راہ سفر کے ساتھی تم مری موت کی دہلیز تلک ساتھ سہی زیست کی رات کے اس پچھلے پہر کیوں پلاتے ہو محبت کی دوا اب مرا روگ تو اچھا نہیں ہونے والا اب کوئی خواب بھی سچا نہیں ہونے والا تم مری آنکھ سے ڈھلکے ہوئے اشکوں کو پھر سے واپس انہی دو آنکھوں میں لوٹا دو گے کیا مرا کھویا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    اس طرح چھو کے گزرتی ہے تری یاد مجھے

    اس طرح چھو کے گزرتی ہے تری یاد مجھے جیسے اقرار کے لمحوں کو حیا چھوتی ہے جیسے گھلتا ہے گھٹاؤں کا بدن پانی میں جیسے پھولوں کی قباؤں کو صبا چھوتی ہے جیسے دم توڑتی روحوں سے گلے آس لگے جیسے مظلوم کے ہونٹوں کو دعا چھوتی ہے جیسے سورج کی کرن چوم لے رخ دھرتی کا جیسے سجدے کی ضیا نور خدا ...

    مزید پڑھیے