مسافر کے ٹھکانے نہیں ہوتے
اے مرے ماضی کی
بچھڑی ہوئی راہو
خیال یار سے بڑھ کر
حسین شاہ راہو
صدا نہ دو مجھ کو
کہ سر زمین وطن پر
کسی بھی آنگن کے
کسی دراز بدن در کے
خوب رو سے ماتھے پر
میرے خیال میں دل کش
حسین نام کی تحریر
کاتب وقت نے نہیں لکھی
کہ میں ہوائے دہر ہوں
بھٹکنا نگر نگر
اجنبی دیاروں میں
میرا مقدر ہے
مسافروں کے ٹھکانے
کہیں نہیں ہوتے
کہ دسترس میں ہوں
جن کے صرف غنیم دوراں
رفیق ان کے
زمانے نہیں ہوتے