نا ممکن

اے مرے راہ سفر کے ساتھی
تم مری موت کی دہلیز تلک ساتھ سہی


زیست کی رات کے اس پچھلے پہر
کیوں پلاتے ہو محبت کی دوا


اب مرا روگ تو اچھا نہیں ہونے والا
اب کوئی خواب بھی سچا نہیں ہونے والا


تم مری آنکھ سے ڈھلکے ہوئے اشکوں کو
پھر سے واپس انہی دو آنکھوں میں لوٹا دو گے


کیا مرا کھویا ہوا وقت مجھے لا دو گے
کیوں مرے چوم کے لب درد جگاتے ہو مرا


کیا کبھی سوکھے ہوئے گل پہ بہار آئی ہے
اب مرے ٹوٹ کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو نہ جوڑ


ٹوٹ کے بکھرے ہوئے شیشے نہ جڑتے دیکھے
پر کٹے پنچھی ہواؤں میں نہ اڑتے دیکھے