Naeem Faraz

نعیم فراز

  • 1980

نعیم فراز کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    اک وہ کہ اپنی ضد پہ برابر اڑے رہے

    اک وہ کہ اپنی ضد پہ برابر اڑے رہے اک ہم کہ انتظار میں پہروں کھڑے رہے دریائے عشق کر لیا ہوتا عبور میں لیکن مرے نصیب میں کچے گھڑے رہے جتنے تھے کم نگاہ وہ جلوؤں میں کھو گئے اہل نظر کی آنکھ پہ پردے پڑے رہے اک شور جی حضوری کا رہتا تھا آس پاس جب تک مرے لباس میں ہیرے جڑے رہے حیرت کہ جن ...

    مزید پڑھیے

    ہم وصل کی دن رات دعا مانگ رہے ہیں

    ہم وصل کی دن رات دعا مانگ رہے ہیں بیمار محبت ہیں دوا مانگ رہے ہیں مشکل سے ملا کرتے ہیں با ظرف مخالف دشمن مرے جینے کی دعا مانگ رہے ہیں اس درجہ فروزاں ہیں مرے داغ جگر بھی خورشید و قمر مجھ سے ضیا مانگ رہے ہیں پر نور ہے جن سے مری آنکھوں کا جزیرہ اوروں سے مرے گھر کا پتہ مانگ رہے ...

    مزید پڑھیے

    بیوہ ماں کو خون کے آنسو رلاتے ہیں چراغ

    بیوہ ماں کو خون کے آنسو رلاتے ہیں چراغ چھوڑ کر بستہ کتابیں جب کماتے ہیں چراغ سونے چاندی تانبے پیتل سے بنانا فن نہیں اہل فن ہیں جو کہ مٹی سے بناتے ہیں چراغ آج بھی میرے وطن کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں شام ہوتے ہی بڑے بوڑھے لگاتے ہیں چراغ کشتیاں رستے سے ہٹ جائیں نہ طوفاں کے سبب ہم ...

    مزید پڑھیے

    لکیریں کھینچ کر کیا کیا وہ کاغذ پر بناتا ہے

    لکیریں کھینچ کر کیا کیا وہ کاغذ پر بناتا ہے ترا دوانہ تیرے حسن کا پیکر بناتا ہے بدلتے وقت نے اس کا حسیں پیشہ بدل ڈالا جو کل پھولوں کا تاجر تھا وہ اب خنجر بناتا ہے بنا گہنوں کے رخصت ہو گئی لخت جگر اس کی امیروں کے لئے جو قیمتی زیور بناتا ہے چلو اس شخص کی ہمت کی ہم بھی داد ہی دے ...

    مزید پڑھیے