Naeem Faraz

نعیم فراز

  • 1980

نعیم فراز کی غزل

    اک وہ کہ اپنی ضد پہ برابر اڑے رہے

    اک وہ کہ اپنی ضد پہ برابر اڑے رہے اک ہم کہ انتظار میں پہروں کھڑے رہے دریائے عشق کر لیا ہوتا عبور میں لیکن مرے نصیب میں کچے گھڑے رہے جتنے تھے کم نگاہ وہ جلوؤں میں کھو گئے اہل نظر کی آنکھ پہ پردے پڑے رہے اک شور جی حضوری کا رہتا تھا آس پاس جب تک مرے لباس میں ہیرے جڑے رہے حیرت کہ جن ...

    مزید پڑھیے

    ہم وصل کی دن رات دعا مانگ رہے ہیں

    ہم وصل کی دن رات دعا مانگ رہے ہیں بیمار محبت ہیں دوا مانگ رہے ہیں مشکل سے ملا کرتے ہیں با ظرف مخالف دشمن مرے جینے کی دعا مانگ رہے ہیں اس درجہ فروزاں ہیں مرے داغ جگر بھی خورشید و قمر مجھ سے ضیا مانگ رہے ہیں پر نور ہے جن سے مری آنکھوں کا جزیرہ اوروں سے مرے گھر کا پتہ مانگ رہے ...

    مزید پڑھیے

    بیوہ ماں کو خون کے آنسو رلاتے ہیں چراغ

    بیوہ ماں کو خون کے آنسو رلاتے ہیں چراغ چھوڑ کر بستہ کتابیں جب کماتے ہیں چراغ سونے چاندی تانبے پیتل سے بنانا فن نہیں اہل فن ہیں جو کہ مٹی سے بناتے ہیں چراغ آج بھی میرے وطن کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں شام ہوتے ہی بڑے بوڑھے لگاتے ہیں چراغ کشتیاں رستے سے ہٹ جائیں نہ طوفاں کے سبب ہم ...

    مزید پڑھیے

    لکیریں کھینچ کر کیا کیا وہ کاغذ پر بناتا ہے

    لکیریں کھینچ کر کیا کیا وہ کاغذ پر بناتا ہے ترا دوانہ تیرے حسن کا پیکر بناتا ہے بدلتے وقت نے اس کا حسیں پیشہ بدل ڈالا جو کل پھولوں کا تاجر تھا وہ اب خنجر بناتا ہے بنا گہنوں کے رخصت ہو گئی لخت جگر اس کی امیروں کے لئے جو قیمتی زیور بناتا ہے چلو اس شخص کی ہمت کی ہم بھی داد ہی دے ...

    مزید پڑھیے