اک وہ کہ اپنی ضد پہ برابر اڑے رہے
اک وہ کہ اپنی ضد پہ برابر اڑے رہے
اک ہم کہ انتظار میں پہروں کھڑے رہے
دریائے عشق کر لیا ہوتا عبور میں
لیکن مرے نصیب میں کچے گھڑے رہے
جتنے تھے کم نگاہ وہ جلوؤں میں کھو گئے
اہل نظر کی آنکھ پہ پردے پڑے رہے
اک شور جی حضوری کا رہتا تھا آس پاس
جب تک مرے لباس میں ہیرے جڑے رہے
حیرت کہ جن کو ڈھونڈے ہے دریا ادھر ادھر
در پر مرے فرازؔ وہ پیاسے کھڑے رہے