لکیریں کھینچ کر کیا کیا وہ کاغذ پر بناتا ہے

لکیریں کھینچ کر کیا کیا وہ کاغذ پر بناتا ہے
ترا دوانہ تیرے حسن کا پیکر بناتا ہے


بدلتے وقت نے اس کا حسیں پیشہ بدل ڈالا
جو کل پھولوں کا تاجر تھا وہ اب خنجر بناتا ہے


بنا گہنوں کے رخصت ہو گئی لخت جگر اس کی
امیروں کے لئے جو قیمتی زیور بناتا ہے


چلو اس شخص کی ہمت کی ہم بھی داد ہی دے لیں
سمندر کے کنارے ریت کا جو گھر بناتا ہے


جنوں کی کون سی منزل پہ آ پہنچا ہے دیوانہ
جو سورج کے مقابل موم کا لشکر بناتا ہے


فرازؔ اس کے قدم لینے کبھی منزل نہیں آتی
سفر کے صرف منصوبے ہی جو اکثر بناتا ہے