ہم وصل کی دن رات دعا مانگ رہے ہیں

ہم وصل کی دن رات دعا مانگ رہے ہیں
بیمار محبت ہیں دوا مانگ رہے ہیں


مشکل سے ملا کرتے ہیں با ظرف مخالف
دشمن مرے جینے کی دعا مانگ رہے ہیں


اس درجہ فروزاں ہیں مرے داغ جگر بھی
خورشید و قمر مجھ سے ضیا مانگ رہے ہیں


پر نور ہے جن سے مری آنکھوں کا جزیرہ
اوروں سے مرے گھر کا پتہ مانگ رہے ہیں


تم لوگ تمنائی ہو خورشید و قمر کے
ہم لوگ تو چھوٹا سا دیا مانگ رہے ہیں


اتنا ہے فرازؔ دل مضطر کا فسانہ
میرے لئے رو کر وہ دعا مانگ رہے ہیں