نادیہ عنبر لودھی کی غزل

    کیوں میں بار دگر جاؤں

    کیوں میں بار دگر جاؤں پھر سے اس کے در جاؤں تجھ آنکھوں سے جہاں دیکھوں بے رنگی سے ڈر جاؤں تو چاہے تو جی اٹھوں تو چاہے تو مر جاؤں میں بے انت سمندر ہوں کیسے دریا میں اتر جاؤں چادر شب ہوں میں تیری تو اوڑھے تو سنور جاؤں خواب نہ دیکھوں تو عنبرؔ شاید میں بھی مر جاؤں

    مزید پڑھیے

    کس کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے

    کس کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے دور تک خواہش اڑتی جاتی ہے دل وہ میرا عجب بہانوں سے توڑتی ہے کبھی بناتی ہے جوں ہی ہوتی ہوں گم کہانی میں تری تصویر ڈھونڈ لاتی ہے دس محرم کو پیاس کربل کی مجھ کو ہر بار ہی رلاتی ہے اپنی زر خیزیاں بڑھانے کو گیلی مٹی مجھے بلاتی ہے عشق عنبرؔ وہ بے قراری ...

    مزید پڑھیے

    دیواروں پہ کیا لکھا ہے

    دیواروں پہ کیا لکھا ہے شہر کا شہر ہی سوچ رہا ہے غم کی اپنی ہی شکلیں ہیں درد کا اپنا ہی چہرہ ہے عشق کہانی بس اتنی ہے قیس کی آنکھوں میں صحرا ہے کوزہ گر نے مٹی گوندھی چاک پہ کوئی اور دھرا ہے عنبرؔ تیرے خواب ادھورے تعبیروں کا بس دھوکا ہے

    مزید پڑھیے

    عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں

    عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں واسطے میرے تقدیر تھی ہی نہیں کس لیے ہو کے مجبور تم آئے ہو بیچ دونوں کے زنجیر تھی ہی نہیں عالم رنگ و بو کو سجایا گیا اس تماشے میں تقصیر تھی ہی نہیں تیرے درشن کو آنکھیں ترستی رہیں خانۂ دل میں تصویر تھی ہی نہیں اس کو عنبرؔ گھسیٹا گیا تھا یوں ...

    مزید پڑھیے

    سیم و زر کی کوئی تنویر نہیں چاہتی میں

    سیم و زر کی کوئی تنویر نہیں چاہتی میں کسی شہزادی سی تقدیر نہیں چاہتی میں مکتب عشق سے وابستہ ہوں کافی ہے مجھے داد غالبؔ سند میرؔ نہیں چاہتی میں فیض یابی تری صحبت ہی سے ملتی ہے مجھے کب ترے عشق کی تاثیر نہیں چاہتی میں قید اب وصل کے زنداں میں تو کر لے مجھ کو یہ ترے ہجر کی زنجیر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    درد اور غم کے مارے نکلے رات سفر صحرا اور میں

    درد اور غم کے مارے نکلے رات سفر صحرا اور میں ایک ہی جنگ کے ہارے نکلے رات سفر صحرا اور میں دکھ کی چادر تان کے ہم نے ہجر کی رات گزاری تھی آنسو جگنو تارے نکلے رات سفر صحرا اور میں غرق ہوئے پھر موج فنا میں اک اک کر کے سب کے سب دیکھو فانی سارے نکلے رات سفر صحرا اور میں ہم نے جس کی ...

    مزید پڑھیے

    مجھ میں سوئے ہوئے ماہتاب سے کم واقف ہے

    مجھ میں سوئے ہوئے ماہتاب سے کم واقف ہے تو مری آنکھ کے تالاب سے کم واقف ہے بغض اعدا خوۓ احباب سے کم واقف ہے جو مرے حلقۂ ارباب سے کم واقف ہے سطوت قصر شہی دھوکے میں رکھتا ہے کہ جو عظمت گنبد و حراب سے کم واقف ہے عشق کی چاہیے تعلیم ابھی اور اسے جو محبت ادب آداب سے کم واقف ہے زیست ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کو اک خواب دکھایا جا سکتا ہے

    آنکھوں کو اک خواب دکھایا جا سکتا ہے قصہ یوسف کا دہرایا جا سکتا ہے ساری دنیا کو ٹھکرایا جا سکتا ہے حسن و عشق دعا سے پایا جا سکتا ہے جو مجھ میں ہو زلیخا تجھ میں یوسف کوئی عمروں کا سرمایہ لایا جا سکتا ہے اس کو کہنا مری آنکھوں کے کاسے میں دید کا اک سکہ تو دکھایا جا سکتا ہے ناداں ...

    مزید پڑھیے

    وہ گھر تنکوں سے بنوایا گیا ہے

    وہ گھر تنکوں سے بنوایا گیا ہے وہاں ہر خواب دفنایا گیا ہے مری الفت کو کیا سمجھے گا کوئی سبق نفرت کا دہرایا گیا ہے مرے اندر کا چہرہ مختلف ہے بدن پہ اور کچھ پایا گیا ہے ہوئی ہے زندگی افتاد ایسے ہوس میں ہر مزا پایا گیا ہے کہی ایسی ہے عنبرؔ اس کی ہر بات شکستہ دل کو تڑپایا گیا ہے

    مزید پڑھیے

    پھول ہے دل انگارہ کیسے ہو سکتا ہے

    پھول ہے دل انگارہ کیسے ہو سکتا ہے میٹھا پانی کھارا کیسے ہو سکتا ہے کسی کو دل پہ اجارہ کیسے ہو سکتا ہے من ہے مٹی گارا کیسے ہو سکتا ہے تارے نکلیں خوشبو مہکے رات رہے ہر پل اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے یہ سارے منظر تو اس کے ساتھ آئے اس سے میرا کنارا کیسے ہو سکتا ہے کیسے کوئی تنہا جی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2