نادیہ عنبر لودھی کی غزل

    زمیں لپیٹتا ہے آسماں سمیٹتا ہے

    زمیں لپیٹتا ہے آسماں سمیٹتا ہے کہاں کی بات کو یہ دل کہاں سمیٹتا ہے حسین رفعتیں تقسیم کرتا ہے اب بھی یزید آج بھی رسوائیاں سمیٹتا ہے وہیں پہ گردشیں رک سکتی ہیں زمانے کی وہ جست بھرتا ہے اور پر جہاں سمیٹتا ہے اسے بتانا کہ تم جب کہیں بھی ٹوٹتے ہو تمہاری کرچیاں کوئی یہاں سمیٹتا ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو آغاز سفر مارتا ہے

    ہم کو آغاز سفر مارتا ہے مارتا کوئی نہیں ڈر مارتا ہے زندگی ہے مری مشکل میں پڑی عشق ہے کہ بے خبر مارتا ہے تری مجھ سے نہیں قربت نہ سہی مجھ کو تو حسن نظر مارتا ہے زندگی اس کی ہے محتاج مگر دے بھی سکتا ہے مگر مارتا ہے اک ہنسی گونجی تھی گھر میں میرے مجھ کو یادوں کا اثر مارتا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2