کس کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے
کس کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے
دور تک خواہش اڑتی جاتی ہے
دل وہ میرا عجب بہانوں سے
توڑتی ہے کبھی بناتی ہے
جوں ہی ہوتی ہوں گم کہانی میں
تری تصویر ڈھونڈ لاتی ہے
دس محرم کو پیاس کربل کی
مجھ کو ہر بار ہی رلاتی ہے
اپنی زر خیزیاں بڑھانے کو
گیلی مٹی مجھے بلاتی ہے
عشق عنبرؔ وہ بے قراری ہے
لگتی ہے اور بڑھتی جاتی ہے