Nabeel Ahmad Nabeel

نبیل احمد نبیل

نبیل احمد نبیل کی غزل

    لے کے ہاتھوں میں محبت کے گہر آئے ہیں

    لے کے ہاتھوں میں محبت کے گہر آئے ہیں اک نظر دیکھ ترے خاک بسر آئے ہیں اک عجب دھڑکا دل و جاں کو لگا رہتا ہے جب بھی پردیس سے ہم لوٹ کے گھر آئے ہیں جس طرف بھی میں گیا میں نے جدھر بھی دیکھا زخم کی طرح مجھے لوگ نظر آئے ہیں نوک نیزہ کی طرف ایک نظر دیکھ ذرا کس بلندی پہ وہ عشاق کے سر آئے ...

    مزید پڑھیے

    ہرے ہیں زخم کچھ اس طرح بھی مرے سر کے

    ہرے ہیں زخم کچھ اس طرح بھی مرے سر کے تمام عمر اٹھائے ہیں ناز پتھر کے لہولہان ہوا ہے مرا بدن یوں بھی پکڑ نہ پایا کبھی ہاتھ میں ستم گر کے بس ایک حرف مقرر کے جرم میں ہم نے زباں پہ وار ہزاروں سہے ہیں خنجر کے وہ لوگ لایا گیا ہے جنہیں برابر میں کسی طرح بھی نہیں تھے مرے برابر کے کچھ ...

    مزید پڑھیے

    فلک بنایا گیا ہے زمیں بنائی گئی

    فلک بنایا گیا ہے زمیں بنائی گئی اماں کی کوئی جگہ ہی نہیں بنائی گئی نکلتی کس طرح کوئی یقین کی صورت یقین کی کوئی صورت نہیں بنائی گئی چلیں گے ہم بھی محبت نگر سمجھ کے اسے گر ایسی کوئی بھی بستی کہیں بنائی گئی بجھے بجھے ہوئے منظر وہ جس مقام کے تھے ہمارے رہنے کی صورت وہیں بنائی ...

    مزید پڑھیے

    کس طرح بنائیں ہم اپنا یہ مکاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

    کس طرح بنائیں ہم اپنا یہ مکاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے جوڑتے انہیں کیسے اور پھر کہاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے ایک حسرت تعمیر دل میں جو ذرا سی تھی ڈر تھا جاگ اٹھے گی اور جاگ اٹھی ہے کان کھول کر سن لو تم مرا بیاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ ایک شخص بہ انداز محرمانہ ملا

    وہ ایک شخص بہ انداز محرمانہ ملا ملا وہ جب بھی ہمیں ذات سے جدا نہ ملا ہمیں بھی اپنی جبیں کو جھکانا آتا تھا مگر تلاش تھی جس کی وہ نقش پا نہ ملا کسی کے حسن کا مضمون ہم رقم کرتے سو حسب حال ہمیں ایسا قافیہ نہ ملا وضاحتیں تو محبت میں ہم بھی کرتے مگر کتاب دل کا ہمیں کوئی حاشیہ نہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر بدن کو اب یہاں ایسا گہن لگنے لگا

    ہر بدن کو اب یہاں ایسا گہن لگنے لگا جس کو دیکھو اب وہی بے پیرہن لگنے لگا جب سے ڈھالا ہے ستاروں میں نگاہ شوق کو چاند سے بڑھ کر تمہارا بانکپن لگنے لگا میری جانب پیار سے دیکھے نہ کوئی اک نظر حلقۂ احباب تیری انجمن لگنے لگا زندہ لاشوں کی طرح لگنے لگی انسانیت پیرہن اب آدمیت کا کفن ...

    مزید پڑھیے

    جو نقش مٹ چکا ہے بنانا تو ہے نہیں

    جو نقش مٹ چکا ہے بنانا تو ہے نہیں اجڑا دیار ہم نے بسانا تو ہے نہیں آنکھوں کے دیپ راہ میں اس کے جلائیں کیا اس نے پلٹ کے پھر کبھی آنا تو ہے نہیں لازم ہے چلنا زیست کی راہوں پہ بھی مگر جو گر پڑے کسی نے اٹھانا تو ہے نہیں بھر جائے گا یہ تھوڑی سی چارہ گری کے بعد تازہ لگا ہے زخم پرانا تو ...

    مزید پڑھیے

    دور کچھ اہل جنوں کی بے قراری کیجیے

    دور کچھ اہل جنوں کی بے قراری کیجیے ہو سکے تو ان کی تھوڑی غم گساری کیجیے جن کے بستر سے نہیں جاتی کوئی سلوٹ کبھی ان کی آنکھوں میں وفا کے خواب جاری کیجیے عشق کی قسمت یہی ہے عشق کا منصب یہی جاگیے شب بھر یوں ہی اختر شماری کیجیے نوچیے زخم جگر کو آنکھ بھر کر روئیے اور کب تک ہجر میں یوں ...

    مزید پڑھیے

    تو نہ آئے گا مجھے جب سے یقیں آ گیا ہے

    تو نہ آئے گا مجھے جب سے یقیں آ گیا ہے آسماں جیسے مرا زیر زمیں آ گیا ہے جس کے ملنے کو مسافت تھی کئی برسوں کی ایک ہی پل میں وہ ہم زاد یہیں آ گیا ہے نکھرا نکھرا سا ہے ہر شعر غزل کا میری سوچ میں جب سے تصور وہ حسیں آ گیا ہے ہر طرف طنز کے نشتر ہیں ہماری جانب کس کے ہاتھوں میں مرا دین مبیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسا کار دنیا ہو رہا ہے

    یہ کیسا کار دنیا ہو رہا ہے لہو انساں کا سستا ہو رہا ہے ذرا حالات کیا بدلے ہمارے جو اپنا تھا پرایا ہو رہا ہے دلوں کا میل بڑھتا جا رہا ہے بشر اندر سے کالا ہو رہا ہے گھٹائیں خشک ہوتی جا رہی ہیں جو دریا تھا وہ صحرا ہو رہا ہے یہی ہوتا رہا ہے ہم سے اکثر ہمارے ساتھ جیسا ہو رہا ہے قدم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5